کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 62
فَمَا سُئِلَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنْ شَیْئٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إلاَّ قَالَ:’’اِفْعَلْ وَلَا حَرَجَ۔‘‘[1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر سوال کرنے والے لوگوں کے لیے منی میں رکے۔ پس ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کیا :’’ میں نے بے خبری میں ذبح کر نے سے پہلے سر منڈالیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ( اب ) ذبح کر لو اور کچھ حرج نہیں۔‘‘ ایک دوسرا شخص آیا اور کہنے لگا:’’ میں نے بے سمجھے رمی سے پہلے ذبح کر لیا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ ( اب )رمی کر لو اور کچھ حرج نہیں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی آگے پیچھے کیے ہوئے کام کے متعلق سوال نہ کیا گیا، مگر آپ نے فرمایا:’’ ( اب ) کرلو، اور کچھ مضائقہ نہیں۔‘‘ اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منی میں سوال کرنے والے لوگوں کو جوابات دیے اور تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث پر عنوان بایں الفاظ تحریر فرمایا ہے: [بَابُ الْفُتْیَا وَھُوَ وَاقِفٌ عَلَی الدَّابَّۃِ وَغَیْرِھَا] [2] [جانور وغیرہ پر حالت سواری میں فتوی دینے کے متعلق باب] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کی شرح کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’[وَھُوَ وَاقِفٌ] أَیْ الْمُفتِي وَمُرَادُہٗ أَنَّ الْعَالِمَ یُجِیْبُ سُؤَالَ الطَّالِبِ،وَلَوْکَانَ رَاکِبًا۔‘‘[3] ’’یعنی مفتی سواری پر ہو،اس سے مراد یہ ہے کہ عالم خواہ سوار ہو، طالب علم
[1] صحیح البخاري،کتاب العلم،رقم الحدیث۸۳،۱/ ۱۸۰۔ [2] المرجع السابق۱؍۱۸۰۔ [3] فتح الباري۱/۱۸۰۔