کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 57
بات کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے کہ عشاء کے بعد گفتگو کی ممانعت خالی از خیر بات چیت کے متعلق ہے۔‘‘[1] ۴۔ دو تہائی شب گزرنے کے بعد تعلیم: امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضر ت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ’’کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا ذَھَبَ ثُلُثَا اللَّیْلِ قَامَ، فَقَالَ :’’یَا أَیُّھَا النَّاسُ! اذْکُرُوا اللّٰہَ ! اذکُرُوْا اللّٰہَ ! جَائَ تِ الرَّاجِفَۃُ تَتْبَعُھَا الرَّادِفَۃُ، جَائَ الْمَوْتُ بِمَا فِیْہِ، جَائَ الْمَوْتُ بِمَا فِیْہِ‘‘[2] ’’ جب دو تہائی رات بیت جاتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے،اور فرماتے:’’ اے لوگو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو! اللہ تعالیٰ کو یاد کرو! بھونچال آچکا، اس کے پیچھے اوربھونچال آرہا ہے۔ موت اپنی سختیوں کے ہمراہ آ چکی، موت اپنی سختیوں کے ہمراہ آ چکی۔‘‘ یہ حدیث شریف اس بات پر دلالت کناں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بھی تعلیم و تربیت فرماتے تھے۔ میری جان اور میرے والدین ان پر قربان ہو جائیں،امت کی تعلیم و تربیت کے بارے میں آپ کس قدر متفکر او ر اہتمام فرمانے والے تھے۔ جزاہ اللّٰہ تعالیٰ خیر ما جزی نبیاً عن امتہ۔ آمین اور رب رحیم و کریم ہم ناکاروں
[1] فتح الباري۱/۲۱۰۔ [2] جامع الترمذي، أبواب صفۃ القیامۃ، باب، جزء من رقم الحدیث ۲۴۵۷،۷/۱۲۹۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو [حسن]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق۷/۱۳۰)۔ علامہ مبارکپوری نے تحریر کیا ہے کہ اس کو احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے اس کو [صحیح ]قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو:تحفۃ الأَحوذي۷/۱۳۰۔) ؛ شیخ البانی نے اس حدیث کو [حسن]کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذي۲/۲۹۹)۔