کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 54
حضرات صحابہ کو نماز عشاء کے بعد بتلائی۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: [بَابُ السَّمَرِ فِي الْعِلْمِ] [سونے سے پہلے رات کو علمی گفتگو کے بارے میں باب] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ عنوان باب کی شرح میں تحریر کرتے ہیں :’’(اَلسَّمَرُ) سین اور میم کی زبر کے ساتھ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ میم کے سکون کے ساتھ ہے کیونکہ وہ اسم فعل ہے اور اس سے مراد رات کو سونے سے قبل بات چیت کرنا ہے۔‘‘ علامہ عینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے:’’امام بخاری نے حدیث روایت کی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور بعد میں گفتگو کو ناپسند فرماتے تھے۔ یہ حدیث عشاء کے بعد ہر قسم کی گفتگو کی ممانعت پر دلالت کناں ہے، جب کہ مذکورہ بالاحدیث علم و خیر کے بارے میں بات چیت کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ اسی لیے ہم ممانعت والی حدیث کو علم و خیر کے علاوہ دیگر گفتگو کے ساتھ مخصوص کریں گے۔‘‘ حدیث شریف میں فائدہ دیگر: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی ابتدا اسلوب استفہام [ اَرَأَیْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ھٰذِہٖ؟] [کیاتم اپنی یہ رات دیکھ رہے ہو؟]سے فرمائی۔ سامعین کی توجہ مبذول کروانے میں اس انداز بیان کی اہمیت،سلسلہ تعلیم سے منسلک بلکہ عام لوگوں سے بھی، مخفی نہیں۔[1]
[1] اس بارے میں قدرے تفصیلی گفتگو کتاب ہذا کے صفحات ۲۱۴۔۲۲۱ پر ملاحظہ فرمائیے۔