کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 47
علاوہ ازیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود امت کو خبر دی ہے کہ وہ اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کا ثمرہ ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
قُلْتُ:’’یَا نَبِیَّ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ! مَاکَانَ أَوَّلُ بَدْئِ أَمْرِکَ؟‘‘
قَالَ:’’دَعْوَۃُ أَبِيْ إِبْرَاھِیْمَ، وَبُشْرٰی عِیْسٰی عَلَیْھِمَا السَّلَامُ‘‘ الحدیث۔[1]
’’ میں نے عرض کیا:’’ اے اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کے معاملے کی ابتدا کیا تھی؟ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ [ میں ] اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ء اور عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت [ ہوں ]۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بحیثیت معلم مبعوث ہونے کے دلائل:
قرآ ن و سنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے [بحیثیت معلم ] مبعوث کئے جانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں چار دلائل درج ذیل ہیں :
ا:ارشاد ربانی ہے:
{کَمَآأَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ}[2]
[1] المسند۵/۲۶۲۔ (ط:المکتب الاسلامي)۔ حافظ ہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں تحریر کیا ہے:’’احمد نے اس کو [اسناد حسن]کے ساتھ رو ایت کیا ہے، اس کو تقویت دینے والے شواہد[بھی]ہیں، اور اس کو طبرانی نے [بھی]روایت کیا ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد ۸/۲۲۲)۔
[2] سورۃالبقرہ/الآیۃ۱۵۱۔