کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 46
اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا} [1] ’’ بلا شک و شبہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے، اس کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت کا یقین رکھتا ہو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرتا ہو۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مطہرہ کے بہت سے زریں پہلوہیں اور ان میں سے ایک انتہائی عظیم پہلو یہ ہے کہ اللہ کریم نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو شرفِ قبولیت عطا فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلّم بنا کر مبعوث فرمایا۔ قرآن کریم میں دعائے خلیل علیہ السلام بایں الفاظ ذکر کی گئی ہے : {رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْھِمْ ط إِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ }[2] ’’اے ہمارے رب! انہی میں سے ایک رسول ان کی طرف مبعوث فرمائیے، جو ان کے لیے آپ کی آیات تلاوت کریں، انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیں اور ان کا تزکیہ کریں۔یقینا آپ تو بڑے زبردست اور حکمت والے ہیں۔‘‘
[1] سورۃ الأحزاب/الآیۃ۲۱۔ حافظ ابن کثیر نے اس آیت شریفہ کی تفسیر میں تحریر کیا ہے:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقوال، افعال اور احوال میں آپ کی پیروی کے بارے میں یہ آیت کریمہ عظیم اساس ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر۳/۵۲۲)۔ [2] سورۃ البقرہ/الآیۃ۱۲۹۔ آیت کریمہ کی تفسیر میں قاضی بیضاوی نے تحریر کیا ہے:’’ (وَابْعَثْ فِیْھِمْ) [ان میں مبعوث فرمائیے]یعنی اُمت مسلمہ میں (رَسُوْلًا مِّنْھُمْ) ان کی۔ یعنی ابراہیم اور اسماعیل علیہماالسلام۔ کی نسل میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی اور رسول بھیجا نہیں گیا۔(تفسیر البیضاوی۱/۸۷؛نیز ملاحظہ ہو:التفسیر الکبیر ۴/۶۶)۔ حافظ ابن جوزی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ[الکتاب]سے مراد قرآن کریم اور [الحکمۃ]سے مراد سنت ہے۔(ملاحظہ ہو:زاد المسیر ۱/۱۴۶؛نیز دیکھئے:تفسیر ابن کثیر ۱/۱۹۷)۔