کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 445
سیرت طیبہ کی صورت میں پیش فرماتے۔ اعمال شرعیہ کی کمال درجہ زبانی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ انہیں عملی طور پر طلبہ کو کرکے دکھاتے،تاکہ ان کی کیفیتِ ادائیگی میں معمولی الجھاؤ، اور ادنیٰ تردد باقی نہ رہ جائے۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شاگردوں کو شریک درس فرماتے۔ اس غرض کے لیے اسلوب استفہام کثرت سے استعمال فرماتے۔ علاوہ ازیں دورانِ تعلیم ان سے علمی مسائل کے بارے میں پوچھتے۔
٭ قابل شرم باتوں کا ذکر کنایۃً فرماتے، لیکن شرم کے سبب ضروری باتوں کی تعلیم کو ترک نہ فرماتے۔
٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلبہ کو سوال کرنے کی اجازت دیتے، اچھے سوال کی تعریف کرکے سائل کی حوصلہ افزائی فرماتے، بوقت ضرورت سوال سے زیادہ جواب دیتے۔ بسااوقات اپنے جواب کی وضاحت اور سائل کی تسلی کی خاطر تشبیہ اور قیاس استعمال فرماتے، سوال کا جواب معلوم نہ ہونے کی صورت میں خاموش رہتے، البتہ بے کار اور باعث مشقت سوال پر ناراض ہوتے۔
٭ افہام و تفہیم کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاگردوں کو مناقشہ و مباحثہ اور سوال و جواب کی اجازت دے رکھی تھی۔ خود بھول جانے کی صورت میں انہیں یاد دہانی کرانے کا حکم دے رکھا تھا۔مزیدبرآں اپنی موجودگی میں باصلاحیت شاگردوں کو دوسروں کو سمجھانے کی اجازت دیتے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاگرد کی خواہش پر سکھایا ہوا سبق اس سے سنا۔
٭ طلبہ کے ساتھ تواضع، نرمی اور ان کی ضروریات کو اپنی اور اپنے اہل کی ضروریات پر ترجیح دینے میں انتہائے کمال پر پہنچے ہوئے تھے، البتہ کسی شخص کی غیر متوقع غلطی اور سمجھ دار شخص کا عام فہم بات کا ادراک نہ کرنے پر خفا ہوتے۔