کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 441
’’قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ اَلْمَاھِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ، وَالَّذِيْ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَیَتَتَعْتَعُ فِیْہِ، وَھُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ، لَہُ أَجْرَانِ ‘‘۔[1] ’’ قرآن کا ماہر پیغام رساں معزز نیکو کار فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور[ اپنے کمزور حافظہ کی بنا پر ]اس میں اٹکتا ہے اور اس پر پڑھنا گراں ہے، اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔‘‘ بلاشبہ اسلام میں قرآن کریم کو خوب پختگی سے حفظ کرنے، اور عمدگی سے تلاوت کرنے کی شان و عظمت اور قدر و منزلت بہت زیادہ ہے، لیکن اگر کسی شخص میں ایسا کرنے کی استطاعت ہی نہ ہو، تو کیا وہ تلاوت قرآنِ کریم ترک کردے؟ رب کعبہ کی قسم! ہرگز نہیں۔ ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو اس بات کی ترغیب دی کہ وہ اپنی بساط اور ہمت کے بقدر تلاوت جاری رکھے اور اس کے لیے دگنا اجر و ثواب ہے۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ شرح حدیث میں رقم طراز ہیں : ’’ لَہٗ أَجْرَانِ ‘‘۔ ’’ أَيْ أَجْرٌ لِقِرَائَ تِہٖ، وَأَجْرٌ لِتَحَمُّلِ مشَقَّتِہٖ، وَھٰذَا تَحْرِیْضٌ عَلَی تَحْصِیْلِ الْقِرَائَۃِ ‘‘۔[2] ’’ یعنی ایک اجر اس کے پڑھنے کا، اور دوسرا اجر اس کے مشقت برداشت کرنے کا اور یہ قرأت جاری رکھنے کی ترغیب ہے۔‘‘ خلاصۂ کلام یہ ہے، کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شاگردوں کو اس بات کی ترغیب دیتے کہ معلوماتِ ضروریہ کے بعد جس قدر، اور جس درجہ اور کیفیت سے تعلیم حاصل کرسکو، کرو۔ فَصَلَواتُ رَبِّيْ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِ۔
[1] صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل الماہر بالقرآن والذي یتتعتع فیہ، رقم الحدیث ۲۴۴ (۷۹۸)، ۱ ؍ ۵۴۹ ـ ۵۵۰۔ [2] مرقاۃ المفاتیح ۴ ؍ ۶۱۸۔