کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 438
کتاب میں ایک مقام پر اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان تحریر کیا ہے:
[بَابُ مَنْ أَعَانَ الْمُعْسِرَ فِي الْکُفَّارَۃِ]۔ [1]
[کفارہ (کی ادائیگی) میں تنگ دست کی اعانت کرنے والے کے متعلق باب ]
تنبیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قسم کی آسائش کا معاملہ سلمہ بن صخر الزُرَقی رضی اللہ عنہ سے بھی کیا۔ جب کہ انہوں نے اپنی بیوی سے ظہار کیا، پھر کفارہ دینے سے پہلے اس سے ازدواجی تعلقات قائم کرلیے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آسانی والے معاملہ کے بعد اپنی قوم کے پاس آئے، تو ان سے کہا:
’’ وَجَدْتُ عِنْدَکُمُ الضِّیْقَ وَسُوْئَ الرَّأْيِ، وَوَجَدْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم السَّعَۃَ وَالْبَرَکَۃَ، قَدْ أَمَرَ لِيْ بِصَدَقَتِکُمْ، فَادْفَعُوھَا لِيْ ‘‘۔
قَالَ:’’ فَدَفَعُوْھَا إِلَي ‘‘۔[2]
’’ میں نے تمہارے پاس تنگی اور بری رائے پائی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کشادگی اور برکت پائی۔ انہوں نے حکم دیا ہے کہ تم اپنا صدقہ مجھے دو۔‘‘
انہوں نے بیان کیا:’’ انہوں نے مجھے [اپنا صدقہ] دے دیا۔‘‘
خلاصہ گفتگو یہ ہے، کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شاگردوں کے ساتھ آسانی، آسائش والا عمل اختیار فرماتے، انہیں مصیبت اور مشقت میں نہ ڈالتے۔ صَلَوَاتُ رَبِّيْ وَسَلاَ مُہٗ عَلَیْہِ۔
[1] صحیح البخاري، کتاب کفارات الأیمان، ۱۱ ؍ ۵۹۶۔
[2] ملاحظہ ہو:المسند، رقمي الحدیثین ۱۶۴۱۹ و ۱۶۴۲۱، شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے دونوں میں سے ہر ایک حدیث کے متعلق کہا ہے :اپنی [متعدد]اسانیداور شواہد کے ساتھ یہ حدیث[صحیح]ہے اور [یہ اسناد ضعیف]ہے۔(ہامش المسند ۲۶ ؍ ۳۴۷ و ۳۴۹) ؛ (نیز ملاحظہ ہو:فتح الباري ۴ ؍ ۱۶۴)۔