کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 427
بِہٖ، وَصَلَّیْتُ إِلیٰ جَانِبِہٖ۔
فَلَمَا انْصَرَفَ قَالَ:’’ مَا السُّرَی یَا جَابِرُ ؟ ‘‘۔
فَأَخْبَرْتُہٗ بِحَاجَتِيْ، فَلَمَّا فَرَغْتُ، قَالَ:’’ مَا ھٰذَا الْاِشْتِمَالُ الَّذِيْ رَأَیْتُ؟ ‘‘۔
قُلْتُ:’’ کَانَ ثَوْبٌ (یَعْنِي ضَاقَ) ‘‘۔
قَالَ:’’ فَإِنْ کَانَ وَاسِعًا فَالْتَحِفْ بِہٖ، وَإِنْ کَانَ ضَیِّقًا فَاتَّزِرْ بِہٖ ‘‘۔[1]
’’ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں گیا۔ ایک رات میں اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر [آپ کے پاس] آیا، تو میں نے آپ کو نماز میں مشغول پایا، اس وقت میرے بدن پر ایک ہی کپڑا تھا، میں نے اسے لپیٹ لیا، اور آپ کے پہلو میں نماز پڑھی۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم [نماز سے] فارغ ہوئے،تو فرمایا:’’ اے جابر ! رات کو [اس وقت] تم کیسے آئے ہو؟ ‘‘
میں نے اپنی حاجت بتلائی۔ جب میں فارغ ہوگیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’’ یہ لپیٹنا جو میں دیکھ رہا ہوں،کیسا ہے؟ ‘‘
میں نے عرض کیا:’’ ایک ہی کپڑا تھا یعنی تنگ تھا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اگر وہ کشادہ ہو،تو اس کو لپیٹ لو اور اگر تنگ ہو تو اس کو تہبند کے طور پر باندھ لیا کرو۔‘‘
اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
’’ فَقَامَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لِیُصَلِّيَ، وَکَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَۃٌ،
[1] صحیح البخاري، کتاب الصلاۃ، باب إذا کان الثوب ضیقًا، رقم الحدیث ۳۶۱، ۱ ؍ ۴۷۲۔