کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 423
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہوتے،تو آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت بھی بیٹھتی۔ انہیں میں سے ایک چھوٹے بچے والا شخص تھا، جوکہ اس کے پیچھے سے آتا،تو وہ اس کو اپنے آگے بٹھا دیتا۔ وہ بچہ فوت ہوگیا، تو اس شخص نے بچے کی یاد کے غم میں حلقہ میں حاضر ہونا چھوڑ دیا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غیر حاضری کا نوٹس لیا، اور دریافت فرمایا:’’کیا بات ہے میں فلاں شخص کو (مجلس میں ) نہیں دیکھ رہا؟ ‘‘
لوگوں نے بتلایا :’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا وہ چھوٹا بیٹا[پیارا سا ] جسے آپ[مجلس میں ] دیکھتے تھے، وہ فوت ہو گیا ہے۔‘‘
چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ملاقات فرمائی اور اس سے اس کے چھوٹے بیٹے کے متعلق دریافت فرمایا۔ اس نے بتلایا کہ وہ فوت ہوچکا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تسلی دی۔ پھر آپ نے اس سے فرمایا:’’ اے فلان! تجھے [دونوں میں سے] کون سی بات زیادہ پسند ہے:اپنی ساری عمر اس سے فائدہ اٹھاتا،یا کل جنت کے دروازوں میں سے کسی دروازے پر تم آؤ، تو وہاں وہ تم سے پہلے پہنچا ہو اور جنت کے دروازے کو تمہارے لیے کھولے؟ ‘‘
اس نے عرض کیا:’’ اے اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ وہ جنت کے دروازے پر مجھ سے پہلے پہنچے اور اس کو میرے لیے کھولے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ پس یہ [جزا] تیرے لیے ہے۔‘‘
اس حدیث شریف کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حلقہ سے ایک شخص کی