کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 422
پلٹے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ان کی طرف جائیے اور ان سے کہیے:’’یقینا تم جہنمی نہیں ہو، بلکہ جنتی ہو۔‘‘ ۳۔ بیٹے کے غم میں غیر حاضر رہنے والے کے متعلق استفسار: امام نسائی رحمہ اللہ تعالیٰ نے معاویہ بن قرہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے بیان کیا: ’’کَانَ نَبِيُّ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا جَلَسَ، یَجْلِسُ إِلَیْہِ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِہٖ، وَفِیْھِمْ رَجُلٌ لَہُ ابْنٌ صَغِیْرٌ، یَأْتِیْہِ مِنْ خَلْفِ ظَھْرِہٖ، فَیُقْعِدُہٗ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَھَلَکَ فَامْتَنَعَ الرَّجُلُ أَنْ یَحْضُرَ الْحَلْقَۃَ لِذِکْرِ ابْنِہٖ، فَحَزِنَ عَلَیْہِ۔ فَفَقَدَہُ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم، فَقَالَ:’’مَالِيْ لاَ أَرَی فُلاَنًا؟‘‘ قَالُوْا:’’ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! بُنَیَّہُ الَّذِيْ رَأَیْتَہٗ ھَلَکَ‘‘۔ فَلَقِیَہُ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم، فَسَأَلَہٗ عَنْ بُنَیِّہٖ، فَأَخْبَرَہُ أَنَّہٗ ھَلَکَ، فَعَزَّاہُ عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ:’’ یَا فُلاَنُ! أَیُّمَا کَانَ أَحَبَّ إِلَیْکَ:أَنْ تَمَتَّعَ بِہٖ عُمُرَکَ أَوْ لاَ تَأْتِيَ غَدًا إِلَی بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ إلاَّ وَجَدْتَّہٗ قَدْ سَبَقَکَ إِلَیْہِ، یَفْتَحُہٗ لَکَ ‘‘۔ قَالَ:’’ یَا نَبِيَّ اللّٰہِ! بَلْ یَسْبِقُنِيْ إِلَی بَابِ الْجَنَّۃِ، فَیَفْتَحُھَا لِيْ، لَھُوَ أحَبُّ إِلَيَّ ‘‘۔ قَالَ:’’ فَذَاکَ لَکَ ‘‘۔[1]
[1] سنن النسائي، کتاب الجنائز، في التعزیۃ، ۴ ؍ ۱۱۸۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو [صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن النسائي ۲ ؍ ۴۴۹)،اور امام احمد اور حاکم نے اس کو قدرے اختصار کے ساتھ روایت کیا ہے۔(ملاحظہ ہو:المسند، رقم الحدیث ۱۵۵۹۵ ۲۴ ؍ ۳۶۱ ؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الجنائز ۱ ؍ ۳۸۴)۔ امام حاکم نے اس کو [صحیح]کہا ہے اور حافظ الذھبي نے ان کی تائید کی ہے۔ (ملاحظہ ہو:المرجع السابق ۱ ؍ ۳۸۴ ؛ والتلخیص ۱ ؍ ۳۸۴) ؛ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے المسند کی [اسناد کو صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:ھامش المسند ۲۴ ؍ ۳۶۱)۔