کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 421
پوچھا، تو ایک شخص نے عرض کیا:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ کو اس کے بارے میں خبر لاکر عرض کرتا ہوں۔‘‘ الحدیث
اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی ثابت رضی اللہ عنہ کی غیر حاضری کا نوٹس لیا اور ان کے متعلق ان کے پڑوسی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں لکھا ہے:
’’وَفِیْہِ أَنَّہٗ یَنْبَغِيْ لِلْعَالِمِ وَکَبِیْرِ الْقَوْمِ أَنْ یَّتَفَقَّدَ أَصْحَابَہٗ، وَیَسْأَلَ عَمَّنْ غَابَ مِنْھُمْ۔‘‘[1]
’’ اس [حدیث ]سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عالم اور قوم کے سربراہ کو چاہیے کہ وہ اپنے رفقاء کی غیر حاضری کا نوٹس لے اورغیر موجود اشخاص کے متعلق [دوسروں ] سے پوچھے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ کی غیر حاضری کے بارے میں استفسار کرنے اور ان کے احوال سے آگاہی پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ انہیں یہ پیغام بھی بھیجا کہ مجلس مبارک سے غیر حاضری کے سبب کے متعلق ان کی رائے قطعی طور پر غلط تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ کی روایت میں ہے:
’’ فَقَالَ مُوْسَی بْنُ أَنَسٍ رضی اللّٰه عنہ :’’ فَرَجَعَ الْمَرَّۃَ الْآخَرَۃَ بِبِشَارَۃٍ عَظِیْمَۃٍ، فَقَالَ:’’ اِذْھَبْ إِلَیْہِ، فَقُلْ لَہٗ:’’ إِنَّکَ لَسْتَ مِنْ أَھْلِ النَّارِ، وَلٰکِنْ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّۃِ۔‘‘[2]
’’ موسیٰ بن انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:’’ دوسری بار وہ عظیم بشارت کے ساتھ
[1] شرح النووي ۲ ؍ ۱۳۴۔
[2] صحیح البخاري، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام، جزء من رقم الحدیث ۳۶۱۳، ۶ ؍ ۶۲۰۔