کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 416
باہر تشریف لائے اور لوگوں کے چہروں پر اپنی جلدی کی بنا پر پیدا ہونے والے تعجب و حیرت کو دیکھ کر فرمایا:’’ نماز میں مجھے اپنے ہاں پڑا ہوا سونے کا ایک ڈلا یاد آیا، تو میں نے اس بات کو ناپسند کیا کہ وہ شام تک۔ یا رات کو۔ ہمارے ہاں رہے، اس لیے میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘ اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تیزی سے نماز سے پلٹنے کے متعلق حضرات صحابہ کے تعجب کو ان کے چہروں سے محسوس فرمایا اور پھر اس کا سبب بیان کرکے ان کی حیرت کو دور فرمایا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضراتِ صحابہ پر اپنے اقوال و افعال کے اثرات کا جائزہ لیتے، ان کے ہاں کسی اشکال، الجھاؤ یا حیرت و تعجب کا احساس ہونے پر اس کو دور کرنے کی سعی فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ مبارک ان مدرسین سے یکسر مختلف تھا، جن کا مطمع نظر ادھر اُدھر سے جمع کی ہوئی الٹی سیدھی معلومات کلاس روم میں انڈیلنا ہوتا ہے اورجنہیں اس بات سے کچھ سروکار نہیں ہوتا کہ طلبہ پر ان کی باتوں کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ان میں سے بعض کے انداز تدریس کو دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ کلاس روم میں مدرس کی بجائے کوئی ٹیپ ریکارڈ ر ہے،جس کو آغازِ درس کے وقت چالو کیا گیا اور انتہائے درس پر بند کر دیا گیا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں کی راہ سے دور رکھیں اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پرچلائیں۔ آمین یا حی یا قیوم۔ ۔۔۔۔۔۔