کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 414
’’ أَنَّہٗ أَھْدَی لِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم حِمَارَ وَحْشٍ، وَھُوَ بِالْأَبْوَائِ أَوْ بِوَدَّانَ، وَھُوَ مُحْرِمٌ، فَرَدَّہُ، قَالَ صَعْبٌ رضی اللّٰه عنہ :’’ فَلَمَّا عَرَفَ فِيْ وَجْھِيْ رَدَّہٗ ھَدِیَّتِيْ، قَالَ:’’ لَیْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَیْکَ، وَلٰکِنَّا حُرُمٌ ‘‘۔[1]
’’ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک جنگلی گدھا بطور ہدیہ پیش کیا اور اس وقتآپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابواء یا مقام ودان میں حالت احرام میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ واپس کردیا۔ صعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:’’ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے چہرے پر ہدیہ کی واپسی کے اثر کو ملاحظہ کیا، تو فرمایا:’’ہمارے لیے تمہارا ہدیہ واپس کرنا[مناسب] نہ تھا، لیکن ہم تو حالت احرام میں ہیں۔‘‘
اس حدیث شریف کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدیہ پیش کرنے والے کے چہرے پر ہدیہ کی واپسی کے اثر کوملاحظہ فرمایا۔ہدیہ دینے والے نے بایں الفاظ اس کا ذکر کیا:[جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میر ے چہرے پر ہدیہ کی واپسی کے لیے اثر کو ملاحظہ فرمایا] تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اسی پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ ہدیہ دینے والے کی تسلی اور اطمینان کا اہتمام کرتے ہوئے فرمایا:’’ ہمارے لیے تمہارا ہدیہ واپس کرنا [مناسب] نہ تھا، لیکن ہم تو حالت احرام میں ہیں۔‘‘
سبحان اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کس قدر بلند و بالا تھے! آپ اپنے صحابہ کے ساتھ کس قدر متواضع اور مہربان تھے! صَلَوَاتُ رَبِّیٌ وَسَلَامُہ‘ عَلَیْہِ۔
اس حدیث شریف پر امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے درج ذیل عنوان تحریر کیا ہے:
[1] متفق علیہ:صحیح البخاري، کتاب الہبۃ، رقم الحدیث ۲۵۹۶، ۵ ؍ ۲۲۰ ؛ وصحیح مسلم، کتاب الحج، باب تحریم الصید للمحرم، رقم الحدیث ۵۰ (۱۱۹۳)، ۲ ؍ ۸۵۰۔الفاظ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔