کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 410
٭ معوذتین کی قدرو منزلت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ فجر میں پڑھ کر مزید نمایاں اور واضح فرمایا۔ بلاشک و شبہ عملی طور پر کسی بات کا بیان زبانی بیان سے زیادہ قوی اور مؤثر ہوتا ہے۔ [1] ۲۔ اختلاف فتویٰ کے اثر کو نوٹ فرمانا: امام احمدرحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا: ’’کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَجَائَ شَابٌّ، فَقَالَ:’’ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! صلی اللّٰه علیہ وسلم أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ ‘‘۔ قَالَ:’’ لاَ ‘‘۔ فَجَائَ شَیْخٌ، فَقَالَ:’’ أُقَبِّلُ وَأَنَا صَائِمٌ؟ ‘‘۔ قَالَ:’’ نَعَمْ ‘‘۔ قَالَ:فَنَظَرَ بَعْضُنَا إِلٰی بَعْضٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ قَدْ عَلِمْتُ لِمَ نَظَرَ بَعْضُکُمْ إِلٰی بَعْضٍ، إِنَّ الشَّیْخَ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ ‘‘۔[2] ’’ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے،کہ ایک جوان نے حاضر ہوکر عرض کیا:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں روزہ کی حالت میں بوسہ دے لوں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں۔‘‘ ایک بوڑھا شخص حاضر ہوا اور عرض کیا:’’ میں روزہ کی حالت میں بوسہ دے
[1] اس بارے میں تفصیل کتاب ھذا کے صفحات ۱۹۷۔۱۹۹ پر ملاحظہ ہو۔ [2] المسند ۲ ؍ ۱۸۵ (ط:المکتب الإسلامي)۔ حافظ ہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے:احمد اور الطبرانی نے اس کو [المعجم]الکبیر میں روایت کیا ہے اور اس میں ابن لہیعہ ہیں، ان کی حدیث حسن ہے [اگرچہ]ان میں کلام ہے۔(ملاحظہ ہو:مجمع الزوائد ۳ ؍ ۱۶۶) ؛ نیز ملاحظہ ہو:(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، رقم الحدیث ۱۶۰۶، ۴ ؍ ۱۳۸)۔