کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 408
کَیْفَ رَأَیْتَ؟ ‘‘۔[1]
’’ دورانِ سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کو چلا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عقبہ! کیا میں تمہیں پڑھی جانے والی دو بہترین سورتیں نہ سکھاؤں ؟‘‘
سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (قل أعوذ برب الفلق)اور (قل أعوذ برب الناس)سکھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دونوں کے [سیکھنے کے] ساتھ زیادہ خوش نہ دیکھا۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ صبح کے لیے اترے، تو آپ نے ان دونوں کے ساتھ لوگوں کو نمازِ صبح پڑھائی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے،تو میری طرف توجہ کرکے فرمایا:’’ اے عقبہ! تم نے کیسے دیکھا؟ ‘‘
اس حدیث سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف [معوذتین] کی قدر ومنزلت اور ان کے سکھلانے پر اکتفا نہ فرمایا، بلکہ اپنے فرمان اور تعلیم کے اثر کو شاگرد کے چہرے پر پڑھا، جیسا کہ عقبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دونوں کے سیکھنے پر زیادہ خوش نہ پایا۔] اور امام احمدرحمہ اللہ تعالیٰ کی روایت میں ہے:’’ فَلَمْ یَرنِيْ أُعْجِبْتُ بِھِمَا ‘‘ [آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ان دونوں کے ساتھ [زیادہ] خوش نہ پایا۔]
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر بس نہ کیا،بلکہ نمازِ صبح میں ان دونوں سورتوں کی تلاوت فرمائی۔ شرح حدیث میں علامہ سندھی رحمہ اللہ تعالیٰ رقم طراز ہیں :
[1] المسند، رقم الحدیث ۱۷۳۵۰، ۲۸ ؍ ۵۸۳ (ط:مؤسسۃ الرسالۃ)؛ وسنن النسائي، کتاب الاستعاذۃ، ۸ ؍ ۲۵۳ ؛ وصحیح ابن خزیمۃ، کتاب الصلاۃ، باب قرائۃ المعوذتین في الصلاۃ …، رقم الحدیث ۵۳۵، ۱ ؍۲۶۸۔ الفاظ حدیث سنن النسائی کے ہیں۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو:صحیح سنن النسائي ۳ ؍ ۱۱۰۶) ؛ اور شیخَ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے المسند کی [سند کو حسن]کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو:ھامش المسند ۲۸ ؍ ۵۸۳)۔