کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 398
الزّمرِ الْغِنَائُ،وَآل دَاودَ ھُوَ دَاودُ نَفْسُہٗ، وَآلُ فُلاَنٍ قَدْ یُطْلَقُ عَلَی نَفْسِہٖ، وَکَانَ دَاودُ عَلَیْہِ السَّلاَمُ حَسَنَ الصَّوْتِ جِدًّا۔‘‘[1] ’’ علماء نے بیان کیا ہے:’’ مزمار ‘‘ سے مراد خوبصورت آواز ہے اور ’’الزمر‘‘ اصل میں گانے کو کہتے ہیں اور آل داود سے خود داود علیہ السلام مراد ہیں۔ بسااوقات [آل فلان]کے الفاظ خود اسی شخص کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور داود علیہ السلام بہت ہی خوب صورت آواز والے تھے۔‘‘ اس حدیث شریف کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی خوبصورت آواز میں تلاوت قرآنِ کریم کی تعریف فرما کر ان کی عزت افزائی کی۔ ۳۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خوب صورت تلاوت کی تعریف: توفیق الٰہی سے اس سلسلے میں دو حدیثیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں : ا۔امام مسلم کی روایت : امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ کُنْتُ بِحِمْصَ، فَقَالَ لِيْ بَعْضُ الْقَوْمِ:’’ اِقْرَأْ عَلَیْنَا ‘‘۔ فَقَرَأْتُ عَلَیْھِمْ سُوْرَۃَ یُوْسُفَ۔ قَالَ:’’ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ:’’ وَاللّٰہِ! مَا ھٰکَذَا أُنْزِلَتْ ‘‘۔ قَالَ:’’قُلْتُ:’’ وَیْحَکَ! وَاللّٰہِ! لَقَدْ قَرَأْتُھَا عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم، فَقَالَ لِيْ:’’ أَحْسَنْتَ ‘‘۔[2] ’’ میں حمص میں تھا، تو لوگوں میں سے کسی نے فرمائش کی:’’ ہمارے لیے قراء ت فرمائیے۔ ‘‘ تو میں نے ان کے لیے سورۂ یوسف علیہ السلام پڑھی۔‘‘
[1] شرح النووي ۶ ؍ ۸۰ ؛ نیز ملاحظہ ہو:شرح الطیبي ۱۲ ؍ ۳۹۲۸ ؛ وفتح الباري ۹؍ ۹۳۔ [2] صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل استماع القرآن، جزء من رقم الحدیث ۲۴۹ (۸۰۱)، ۱ ؍ ۵۵۱۔