کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 371
سبب بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ وَتَخْصِیْصُ ھٰؤُلاَئِ الْأَرْبَعَۃِ بِآَٔخْذِ الْقُرْآنِ عَنْھُمْ إِمَّا لِأَنّھُمْ کَانُوْا أَکْثَرَ ضَبْطًا لَہٗ، وَأَتْقَنَ لِأَدَائِہٖ، أَوْلِأَنَّھُمُ تَفَرَّغُوْا لِأَخَذِہٖ عَنْہُ مُشَافَھَۃً، وَتَصَدُّوْا لِأَدَائِہٖ مِنْ بَعْدِہٖ، فَلِذٰلِکَ ندبَ إِلَی الْأُخْذِ عَنْھُمْ، لاَ أَ نَّہٗ لَمْ یَجْمَعْہُ غَیْرُہُمْ۔‘‘[1] ’’ ان چار حضرات سے قرآن کریم سیکھنے کا خصوصیت سے ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یا تو وہ دیگر صحابہ سے زیادہ ضبط قرآن والے اور زیادہ عمدہ ادائیگی والے تھے،یا اس لیے کہ انہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست قرآن کریم سیکھنے اور اس کے بعد اس کی تعلیم دینے کی خاطر فارغ کر رکھا تھا۔ اس تخصیص سے مقصود یہ نہیں کہ ان کے سوا کسی اور نے قرآنِ کریم جمع نہیں کیا ہوا تھا۔‘‘ ۳۔علی رضی اللہ عنہ کا علم میں اُمت میں سب سے زیادہ ہونا: امام احمد اور امام طبرانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے، کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ أَمَا تَرْضَیْنَ أَنْ أُزُوِّجَکِ أَقْدَمَ أُمَّتِيْ سَلمًا۔ وَأَکْثَرَھُمْ عِلْمًا، وَأَعْظَمَھُمْ حِلْمًا۔‘‘[2] ’’ فاطمہ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ میں تمہاری شادی اس شخص سے کر رہا
[1] فتح الباري ۷ ؍ ۱۰۲ ؛ نیز ملاحظہ ہو:عمدۃ القاري ۱۶ ؍ ۲۴۶۔ [2] منقول از:مجمع الزوائد، باب مناقب علي بن أبي طالب رضی اللّٰه عنہ، باب إسلامہ رضی اللّٰه عنہ، ۹ ؍ ۱۰۱، باختصار۔ حافظ ہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے:’’ اس کو احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ اس میں [ایک راوی]خالد بن طہان ہے جس کی ابو حاتم وغیرہ نے توثیق کی ہے، اور باقی روایت کرنے والے [ثقہ] ہیں۔ (المرجع السابق ۹ ؍ ۱۰۱)۔