کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 355
(ا) [بَابُ التَّنْکِیْلِ لِمَنْ أَکْثَرَ الْوِصَالَ]۔ [1] [زیادہ وصال کرنے والے کو سزا دینے کے متعلق باب ] (ب) [بَابٌکَمِ التَّعْزِیْزُ وَالْأَدَبُ؟]۔ [2] [اس بارے میں باب کہ بطور تعزیر و تأدیب دی جانے والی سزا کتنی ہو؟] (ج)[بَابُ مَا یُکْرَہُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِی الْعِلْمِ وَالْغُلُوِّ فِي الدِّیْنِ وَالْبِدَعِ]۔ [3] [ تشدد، جھگڑے، دین میں غلو اور بدعتوں کے ناپسندیدہ ہونے کے متعلق باب] حافظ ابن حجررحمہ اللہ تعالیٰ نے فوائد حدیث بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’یُسْتَفَادُ مِنْہُ جَوازُ التَّعْزِیْرِ بِالتَّجْوِیْعِ وَنَحْوَہِ مِنَ الْأُمُورِ الْمَعْنَوِیَّۃ۔‘‘ ’’ اس سے بھوک وغیرہ اُمور معنویہ کے ساتھ سزا دینے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔‘‘ خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذہین و فطین شخص کے ایسی بات نہ سمجھنے پر خفا ہوتے،جس کا سمجھنا اس جیسے فہم و عقل والے لوگوں کے لیے آسان ہوتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔
[1] صحیح البخاري، کتاب الصیام، ۴؍۲۰۵۔ [2] المرجع السابق، کتاب الحدود، ۱۲ ؍ ۱۷۵ ــ ۱۷۶۔ [3] المرجع السابق، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ۱۳ ؍ ۲۷۵۔