کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 352
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے جواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ناپسند کرنے کا سبب بیان کرتے ہوئے علامہ خطابی رحمہ اللہ تعالیٰ رقم طراز ہیں : ’’ قَولُہٗ [أَنَا] لاَ یَتَضَمَّنُ الْجَوَابَ، وَلاَ یُفِیْدُ الْعِلْمَ بِمَا اسْتَعْمَلَہٗ، وَکَانَ حَقُّ الْجَوَابِ أَنْ یَقُولَ:’’ أَنَا جَابِر ‘‘ لِیَقَعَ تَعْرِیْفُ الْاِسْمِ الَّذِيْ وَقَعَتِ الْمَسْأَلَۃُ عَنْہُ۔‘‘[1] ’’ ان کے قول [میں ] میں جواب نہیں اور نہ ہی وہ مقصود کو واضح کرتا ہے۔ جواب کا حق یہ تھا کہ وہ کہتے:’’ میں جابر ہوں۔‘‘ تاکہ جس [یعنی دستک دینے والے] کے بارے میں پوچھا گیا اس کے نام سے آگاہی ہوجائے۔‘‘ اور چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایسی کوتاہی کی توقع نہ تھی، اس لیے آپ نے ان کی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ واللّٰہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔ ۳۔اپنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال[2] کو ایک جیساسمجھنے پر برہمی: امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا کہ: ’’ نَھَی رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنِ الْوِصَالِ، فَقَالَ لَہٗ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ:’’ فَإِنَّکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! تُوَاصِلُ ‘‘۔ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ أَیُّکُمْ مِثْلِي؟ ‘‘ إِنِّيْ أَبِیْتُ یُطْعِمُنِيْ رَبِّيْ وَیَسْقِینَ ‘‘۔
[1] منقول از فتح الباري۱۱ ؍ ۳۵ ؛ نیز ملاحظہ ہو:شرح النووي ۱۴؍ ۱۳۵۔ [2] وصال سے مراد روزوں کی راتوں میں ان سب چیزوں سے قصداً دور رہنا، جن سے روزوں کے دنوں میں روزہ ختم ہوجاتا ہے۔ (ملاحظہ ہو:فتح الباري ۴ ؍ ۳۰۲)۔