کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 351
۲۔ اجازت طلب کرتے وقت جواب میں کوتاہی پر خفگی:
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالیٰ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں :
’’ أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِي دَیْنٍ کَانَ عَلَی أَبِيْ، فَدَفَعْتُ الْبَابَ، فَقَالَ:’’ مَنْ ذَا؟‘‘۔
فَقُلْتُ:’’ أَنَا ‘‘۔
فَقَالَ:’’ أَنَا أَنَا ‘‘۔ کَأَنَّہٗ کَرِھَھَا۔[1]
وَفِي رِوَایَۃِ أَبِي دَاودَ الطِّیَالِسِيِّ :’’ کَرِہَ ذٰلِکَ ‘‘ بِالْجَزْمِ۔ ‘‘[2]
’’ میں اپنے والد کے ذمہ ایک قرض کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:’’کون ہے؟ ‘‘ تو میں نے عرض کیا:’’ میں۔‘‘
[اس پر] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں میں ‘‘ گویا کہ آپ نے اس [جواب] کو ناپسند فرمایا۔‘‘
اور امام ابو داود الطیالسی رحمہ اللہ تعالیٰ کی روایت میں ہے:
راوی نے بلاتردد یہ بات بیان کی کہ:’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس [جواب] کو ناپسند فرمایا۔‘‘
اس حدیث شریف کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے جواب ’’ میں ‘‘ کو پسند نہ فرمایا اور اپنے ارشاد [میں میں ] کے ساتھ اپنی خفگی کا اظہار فرمایا۔
[1] سورۃ متفق علیہ:صحیح البخاري، کتاب الاستئذان، باب:إذا قال:’’ من ذا؟ ‘‘ فَقال:’’ أنا ‘‘، رقم الحدیث ۶۲۵۰، ۱۱؍۳۵ ؛ وصحیح مسلم، کتاب الآداب، باب کراھۃ قول المستأذن ’’ أنا ‘‘، إذا قیل:’’ من ھذا؟ ‘‘، رقم الحدیث ۳۸(۲۱۵۵)، ۳؍ ۱۶۹۷۔الفاظ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔
[2] منقول از:فتح الباري ۱۱؍۳۵۔