کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 339
قَالَ:’’ فَلَا تَأْتِھِمْ‘‘۔ قَالَ:’’ وَمِنَّا رِجَالٌ یَتَطَیَّرُوْنَ‘‘۔ قَالَ:’’ ذَاکَ شَیْئٌ یَجِدُوْنَہٗ فِي صُدُوْرِھِمْ فَلَا یَصُدَّنَّھُمْ‘‘۔ قَالَ:قُلْت:’’ وَمِنَّا رِجَالٌ یَخُطُّوْنَ‘‘۔ قَالَ:’’ کَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِیَائِ یَخُطُّ، فَمَنْ وَافَقَ خَطَّہُ فَذَاکَ‘‘۔[1] ’’میں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میری جہالت کا زمانہ قریب ہی ہے اور اللہ تعالیٰ اسلام کو لے آیا اور بلا شبہ ہم میں سے [کچھ] لوگ کاہنوں کے پاس آتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ پس تو ان کے پاس نہ آنا۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:’’اور ہم میں [کچھ ]لوگ شگون لیتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ یہ وہ چیز ہے جس کو وہ اپنے سینوں میں پاتے ہیں [یعنی ان کے دلوں میں کھٹکتی ہے]پس یہ انہیں نہ روکے۔‘‘ انہوں نے بیان کیا کہ:’’ میں نے عرض کیا:’’ اور ہم میں سے [کچھ ]لوگ لکیریں کھینچتے ہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ انبیاء میں سے ایک نبی لکیر کھینچتے تھے،پس جو شخص ان کے خط کو پالے، تو بس وہ ہے [یعنی تب ایسا کرنا جائز ہے]۔‘‘ [2] نرمی کے ساتھ تعلیم نے اپنا رنگ دکھایا اور معاویہ سلمی رضی اللہ عنہ اصل حقیقت کو سمجھ گئے کہ زمانہ جاہلیت سے قرب ان کی غلطی کا سبب تھا۔ چنانچہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں
[1] صحیح مسلم ۱/۳۸۳۔ [2] جس شخص کی لکیر اس نبی کی لکیر کے موافق ہو،اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، لیکن چونکہ نبی کی لکیر سے موافقت کے متعلق علم یقینی ہمارے دائرہ استطاعت میں نہیں، اس لیے اب ایسی لکیریں کھینچنا حرام ہے اور اس کی ممانعت پر علماء کا اتفاق ہے۔(ملاحظہ ہو:شرح النووي ۵/۲۳)