کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 327
یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا۔‘‘[1] شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے: ’’ فَإِذَا کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَکْرَہُ ھٰذَا الْقِیَامَ لِنَفْسِہٖ، وَھِيَ الْمَعْصُوْمَۃُ مِنْ نَزَعَاتِ الشَّیْطَانِ، فَبِالْأَحْرٰی أَنْ یَکْرَھَہٗ لِغَیْرِہٖ مِمَّنْ یُخْشیٰ عَلَیْہِ الْفِتْنَۃُ۔ فَمَا بَالُ کَثِیْرٍ مِنَ الْمَشَایِخِ وَغَیْرِھِمْ اسْتَسَاغُوْا ھٰذَا الْقِیَامَ وَأَلِفُوہُ کَأَنّہٗ مَشْرُوعٌ، کَلّا، بَل إِنَّ بَعْضَھُمْ یَسْتَحِبُّہٗ مُسْتَدِلاًّ بِقَوْلِہٖ:’’ قُوْمُوْا إِلیٰ سَیِّدِکُمْ‘‘، ذَاھِلِیْنَ عَنِ الْفَرْقِ بَیْنَ الْقِیَامِ لِلرَّجُلِ اِحْتِرَامًا وَھُوَ الْمَکْرُوْہُ، وَبَیْنَ الْقِیَامِ إِلَیْہِ لِحَاجَۃٍ مِثْلَ الْاِسْتِقْبَالِ وَالْإِعَانَۃِ عَنِ النُّزُوْلِ، وَھُوَ الْمُرَادُ بِھٰذَا الْحَدِیْثِ الصَّحِیْحِ، وَیَدُلُّ عَلَیْہِ رِوَایَۃُ أَحْمَدَ لَہٗ بِلَفْظ:’’ قُوْمُوْا إِلیٰ سَیِّدِکُمْ فَأَنْزِلُوْہُ‘‘۔ وَسَنَدُہٗ حَسَنٌ، وَقَوَّاہُ الْحَافِظُ فِي الْفَتْحِ‘‘۔[2] ’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم شیطان کی شرارتوں کے اثر سے محفوظ کیے جانے کے باوجود، اس قسم کے قیام کو خود اپنی خاطر ناپسند فرمایا کرتے تھے، تو دوسروں کے لیے کہ، جن کے مبتلائے فتنہ ہونے کا خدشہ ہمیشہ رہتا ہے، اس کو بطریق اولیٰ ناپسند کریں گے۔ بہت سے مشائخ اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں کا کیا کیا جائے، جو اس قیام کو روا سمجھتے ہیں اور اس سے اس طرح مانوس ہو چکے ہیں گویا کہ یہ ایک شرعی بات ہے۔ صرف یہی نہیں،بلکہ ان میں سے بعض نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادگرامی [قوموإلیٰ سیدکماپنے سردار کی
[1] ’’ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ بات کو سمجھنے کے قریب ہی نہیں آرہے۔‘‘ [2] سلسلۃ الأحادیث الضعیفۃ۱/۳۵۳۔