کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 321
السَّاکِنَ وَیبعثُ الْکَامِنَ، وَھٰذَا النَّوْعُ إِذَا کَانَ فِي شِعر فِیْہِ وَصْفُ مَحَاسِنِ النِّسَآئِ وَالْخَمْرِ وَغَیْرِھِمَا مِنَ الْأُمُوْرِ الْمُحَرَّمَۃِ لَا یُخْتَلَفُ فِي تَحْرِیْمِہٖ۔ وَأَمَّا مَا ابْتَدَعَہُ الصُّوْفِیَّۃُ فِي ذٰلِکَ فَمِنْ قَبِیْلِ مَالَا یُخْتَلَفُ فِي تَحْرِیْمِہٖ۔‘‘[1] ’’ان کا یہ فرمانا’’وہ دونوں [بچیاں ]گانے والی نہ تھیں۔‘‘ یعنی وہ معروف گانے والی عورتوں کی طرح گانے سے آشنا نہ تھیں۔ اس طرح انہوں [عائشہ رضی اللہ عنہا]نے مشہور گانے سے احتراز کیا ہے اور گانا وہ ہوتا ہے جو ساکن کو حرکت دیتا ہے، مخفی جذبات کو اُبھارتا ہے اور جب یہ شعر کی صورت میں ہو اور اس میں عورتوں کے محاسن، شراب اور ان ایسی دیگر ممنوعہ باتیں ہوں،تو اس کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں اور اس سلسلے میں جو کچھ صوفیوں نے ایجاد کیا ہے، وہ بھی اسی قسم سے ہے،جس کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘ ۳۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فاروق رضی اللہ عنہ کا احتساب کرنا: حضرات ائمہ عبدالرزاق، احمد اور ابو یعلیٰ رحمہم اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص سے روایت نقل کی ہے کہ: ’’ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم صَلَّی الْعَصْرَ، فَقَامَ رَجُلٌ یُصَلِّيْ، فَرَآہُ عُمَرُ رضی اللّٰه عنہ، فَقَالَ لَہُ:’’ اِجْلِسْ، فَإِنَّمَا ھَلَکَ أَھْلُ الْکِتَابِ أَ نَّہٗ لَمْ یَکُنْ لِصَلَاتِھِمْ فَصْل‘‘۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ أَحْسَنَ ابْنُ الْخَطَّابِ‘‘۔[2]
[1] ملاحظہ ہو:فتح الباري ۲/۴۴۲۔ [2] المصنف، کتاب الصلاۃ، با ب الساعۃ التي یکرہ فیھا الصلاۃ، رقم الحدیث ۳۹۷۳؛ والمسند، رقم الحدیث ۲۳۱۲۱؛ ۳۸/۲۰۲(ط:مؤسسۃ الرسالۃ) ؛ومسند أبی یعلی الموصلي، مسند تمیم الداري رضی اللّٰه عنہ، ۳/(۷۱۶۶)، ۱۳/۱۰۷۔ الفاظ حدیث مسند الإمام أحمد کے ہیں۔ حافظ ہیثمی نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے:’’ اس کو احمد اور ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے، اور احمد کے [روایت کرنے والے صحیح کے روایت کرنے والے ہیں ]۔‘‘۔مجمع الزوائد ۲/۲۳۴) ؛ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے المسند کی [اسناد کو صحیح]قرار دیا ہے۔ (ھامش المسند۳۸/۲۰۲؛مسند أبی یعلیٰ کی اسناد کو بھی اس کے فاضل محقق نے [صحیح]قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو:ھامش مسند أبی یعلیٰ الموصلي ۱۳/۱۰۷)۔