کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 315
٭ شاگرد کو اس کے نام کے ساتھ پکارنا۔[1]
٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عطیہ دیتے وقت لوگوں کے احوال کو پیش نظر رکھنا۔
٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم اخلاق کہ آپ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے مشورے کو قبول نہ کرنے کا سبب ان کے لیے واضح فرما دیا۔
۳۔نماز میں آیت چھوڑنے پریاد دہانی کی تاکید۔[2]
۴۔دورانِ نماز قرأت میں تردد کی صورت میں لقمہ دینے کی تاکید۔[3]
۵۔نماز میں بھولنے پر تنبیہ کے مطابق عمل کرنا۔[4]
۶۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمر رضی اللہ عنہ کو حکم کہ وہ آپ کو حسن ادا کا حکم دیں۔[5]
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو اس بات کی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ بوقت ضرورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دہانی کروائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں طرزِ عمل ان نیم پڑھے لکھے مدرسین سے یکسر مختلف تھا،جو کہ غلطی پر ٹوکے جانے اور بھولنے پر یاد دہانی کو برداشت کرنے سے کلی طور پر عاجز ہوتے ہیں۔
اے ہمارے رب کریم! ہمیں ان ایسے لوگوں میں شامل نہ فرمانا اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلانا۔ آمین یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإکْرَام
۔۔۔۔۔۔۔
[1] اس بارے میں تفصیل کے لیے کتاب ھذا کے صفحات ۱۱۸۔۱۳۰ ملاحظہ ہو۔
[2] ان عنوانوں کی تفصیل، تخریج اور تشریح راقم السطور کی کتاب [الاحتساب علی الوالدین] ص۲۴ تا ۲۸ میں ملاحظہ فرمائیے۔
[3] ان عنوانوں کی تفصیل، تخریج اور تشریح راقم السطور کی کتاب [الاحتساب علی الوالدین] ص۲۴ تا ۲۸ میں ملاحظہ فرمائیے۔
[4] ان عنوانوں کی تفصیل، تخریج اور تشریح راقم السطور کی کتاب [الاحتساب علی الوالدین] ص۲۴ تا ۲۸ میں ملاحظہ فرمائیے۔
[5] ان عنوانوں کی تفصیل، تخریج اور تشریح راقم السطور کی کتاب [الاحتساب علی الوالدین] ص۲۴ تا ۲۸ میں ملاحظہ فرمائیے۔