کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 314
اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عطیہ دینے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین بار متنبہ کرنے کی کوشش کی۔کیونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عطیہ پانے والے شخص سے زیادہ مستحق شخص کو بھول رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنبیہ پر انہیں ٹوکا نہیں، بلکہ عطیہ دینے کے بارے میں اپنے فیصلے کے پس منظر سے آگاہ فرمایا۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فوائد حدیث بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے:
’’ وَفِیْہِ تَنْبِیْہُ الْمَفْضُوْلِ الْفَاضِلَ عَلَی مَا یَرَاہُ مَصْلِحَۃً۔‘‘[1]
’’اور اس سے ادنیٰ کا اعلیٰ کو اپنی رائے میں قرین مصلحت بات کے لیے متوجہ کرنا [ثابت ہوتا]ہے۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں رقم طراز ہیں :
وَفِیْہِ تَنْبِیْہُ الصَّغِیْرِ لِلْکَبِیْرِ عَلَی مَا یَظُنُّ أَنّہُ ذَھَلَ عَنْہُ۔[2]
’’اس چھوٹے کا بڑے کو اس بارے میں متوجہ کرنا [ثابت ہوتا]ہے، جس کے متعلق وہ سمجھے کہ بڑا بھول گیا ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کا ہے:
’’ فِیْہِ أَنَّ الْمَفْضُوْلَ یُنَبِّہُ الْفَاضِلَ عَلَی مَا یَرَاہُ مَصْلِحَۃً لِیَنْظُرَ فِیْہِ الْفَاضِل۔‘‘[3]
’’اس میں [یہ ]ہے کہ ادنیٰ جس بات کو قرین مصلحت سمجھے اس کے بارے میں اعلیٰ کو متوجہ کرے،تاکہ وہ اس بارے میں غورو فکر کرے۔‘‘
حدیث شریف میں دیگر فوائد:
حدیث شریف میں موجود دیگر فوائد میں سے مزید درج ذیل ہیں :
[1] شرح النووي ۲/۱۸۱۔
[2] ملاحظہ ہو:فتح الباري ۱/۸۱۔
[3] عمدۃ القاري ۱/۱۹۵۔