کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 303
بلکہ ان کے اشکال کو دور فرمایا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں لکھا ہے: ’’ وَالْغَرَضُ کُلُّہٗ أَنَّھَا اسْتَشْکَلَتْ وُقُوعَ الْعَذَابِ عَلَی مَنْ لَا إِرَادَۃَ لَہٗ فِي الْقِتَالِ الَّذِيْ ھُوَ سَبِیْلُ العُقُوبَۃِ، فَوَقَعَ الْجَوَابُ بِأَنَّ الْعَذَابَ یَقَعُ عَامًا لِحُضُورِ آجَالِھِمْ، وَیُبْعَثُوْنَ بَعْدَ ذَلِکَ عَلیٰ نِیَّاتِھِمْ‘‘۔[1] ’’اصل مقصود یہ ہے کہ انہیں یہ اشکال پیدا ہوا کہ سزا کا سبب [کعبۃ اللہ پر چڑھائی کا ارادہ ]عام لوگوں میں موجود نہ ہو نے کے باوجود ان پر عذاب کیونکر آئے گا، تو جواب دیا گیا کہ اس وقت ان کی موت کا مقرر وقت آپہنچنے کی بنا پر عذاب عام آئے گا، پھر وہ اس کے بعد اپنی نیتوں کے مطابق اُٹھائے جائیں گے۔‘‘ ۳۔تقدیر کے بعد عمل کے متعلق سوال جواب: امام ابن حبان رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں : ’’ قَالَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ :’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! نَعْمَلُ فِي شَیْئٍ نَأْتَنِفُہ أَمْ فِيْ شَیْئٍ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ؟‘‘۔ قَالَ:’’ بَلْ فِي شَیْئٍ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ‘‘۔ قَالَ:’’ یَا عُمَرُ! لَا یُدْرَکُ ذٰلِکَ إِلاَّ بِالْعَمَلِ‘‘۔ قَالَ:’’ إِذًا نَجْتَھِدُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم !‘‘۔ [2]
[1] فتح الباري ۴/۲۴۰۔ [2] الإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب العلم، رقم الحدیث ۱۰۸، ۱/۳۱۲۔ شیخ شعیب ارناؤوط نے اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے روایت کرنے والے ثقہ اور بخاری و مسلم کے راوی ہیں،سوائے ہشام بن عمار کے،کہ وہ صرف بخاری کے راوی ہیں۔ (ملاحظہ ہو:ھامش الإحسان ۱/۳۱۲) ؛علاوہ ازیں حافظ ہیثمی نے اس معنی کی حدیث نقل کرنے کے بعد تحریر کیا ہے :’’ اس کو البزار نے روایت کیا ہے اور [اس کے راویت کرنے والے صحیح کے روایت کرنے والے ہیں ]‘ (مجمع الزوائد،کتاب القدر، باب کل مُیَسَّر لما خلق لہ ‘‘ ۷/۱۹۴۔۱۹۵)۔