کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 291
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ سائل کی کوتاہ فہمی پر تھا کہ اس نے پیش نظر مقصد ہی کو نہ سمجھتے ہوئے [1] اس کو غیر مشابہ چیز پر قیاس کیا۔‘‘
۲۔ناپسندیدہ چیزوں کے متعلق زیادہ سوالوں پر ناراضی:
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ:
’’ سُئِلَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَنْ أَشْیَائَ کَرِھَھَا، فَلَمَّا أُکْثِرَ عَلَیْہِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:’’ سَلُوْنِيْ عَمَّا شِئْتُمْ‘‘۔
قَالَ رَجُلٌ:’’ مَنْ أَبِيْ؟‘‘۔
قَالَ:’’ أَبُوْکَ حُذَافَۃُ‘‘۔
فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ:’’ مَنْ أَبِيْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!‘‘۔ فَقَالَ:’’ أَبُوْکَ سَالِمٌ مَوْلَی شَیْبَۃَ‘‘۔
فَلَمَّا رَأَی عُمَرُ رضی اللّٰه عنہ مَا فِيْ وَجْہِہٖ، قَالَ:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّا نَتُوْبُ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ‘‘۔[2]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ناپسندیدہ باتوں کے متعلق سوال کیا گیا۔ جب آپ سے [اسی قسم کے ]بہت سے سوالات کیے گئے،تو آپ ناراض ہو گئے۔ پھر لوگوں سے فرمایا:’’ [اچھا اب ]مجھ سے جو چاہو پوچھو۔‘‘
ایک آدمی نے پوچھا:’’ میرا باپ کون ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہارا باپ حذافہ ہے۔‘‘
ایک دوسرے شخص نے کھڑے ہو کر دریافت کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا
[1] گری پڑی چیز کو اُٹھانے کا مقصد اس کو ضائع ہونے سے محفوظ کرنا ہوتا ہے اور گم شدہ اونٹ کے بارے میں ایسا خدشہ ہوتا ہی نہیں۔ واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔
[2] متفق علیہ:صحیح البخاري، کتاب العلم، رقم الحدیث ۹۲،۱/۱۸۷؛ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، رقم الحدیث ۱۳۸ (۲۳۶۰)، ۴/۱۸۳۴۔الفاظ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔