کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 288
ارشاد تعالیٰ(جس کا ترجمہ یہ ہے:[کہ آپ اس کے مطابق فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتلایا] کی بنا پر رائے اور قیاس سے [کوئی مسئلہ] نہیں بتلایا] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے عنوان باب کی شرح میں تحریر کیا ہے: ’’ أَيْ کَانَ لَہُ إِذَا سُئِلَ عَنِ الشَّیئِ الَّذِيْ لَمْ یُوْحَ إِلَیْہِ فِیْہِ حَالَانِ:’’إِمَّا أَنْ یَقُوْلَ:’’ لَا أَدْرِيْ‘‘، وَإِمَّا أَنْ یَسْکُتَ، حَتَّی یَأْتِیَہُ بَیَانُ ذَلِکَ بِالْوَحْيِ، وَالْمُرَادُ بِالْوَحْيِ أَعَمُّ مِنَ الْمُتَعبَّدِ بِتِلَاوَتِہٖ وَمِنْ غَیْرِہٖ۔‘‘[1] ’’جب کسی ایسے مسئلے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا جاتا جس میں وحی نازل نہ ہوئی ہوتی تو اس میں دو صورتیں ہوتیں :یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے :’’میں نہیں جانتا ‘‘ اور یا آپ خاموش رہتے، یہاں تک کہ وحی سے اس مسئلہ کی وضاحت ہو جاتی اور وحی سے عمومی وحی مراد ہے جس میں قرآن و سنت دونوں شامل ہیں۔‘‘ تنبیہ: اسی طرح جب حضرت سعد بن الربیع کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنہما نے میراث کے متعلق استفسار کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور آیتِ میراث نازل ہونے تک کوئی جواب نہ دیا۔ [2]
[1] فتح الباري۱۳/۲۹۰۔ [2] ملاحظہ ہو:سنن ابن ماجہ، ابواب الفرائض، فرائض الصلب،رقم الحدیث۲۷۵۲،۲/۱۱۹۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو [حسن]کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو:صحیح سنن ابن ماجہ۲/۱۱۴)؛ نیز ملاحظہ فرمائیے:المسند،رقم الحدیث ۱۴۷۹۸، ۲۳/۱۰۸(ط:مؤسسۃ الرسالۃ) ؛ و سنن أبی داود، کتاب الفرائض، باب ما جاء فی میراث الصلب، رقم الحدیث ۲۸۸۷،۸/۶۹؛ و جامع الترمذي، أبواب الفرائض، باب ما جاء فی میراث البنات، رقم الحدیث ۷۲/۲،۶/۲۲۳۔