کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 277
فَقَالَ:’’ ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا مُعَاذُ! وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَی وُجُوْھِھِمْ أَوْ عَلَی مَنَاخِرِھِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِھِمْ؟‘‘۔[1] ’’میں ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن، جب کہ ہم چل رہے تھے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گیا اور میں نے عرض کیا:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے جنت میں داخل کرنے والا، اور [جہنم کی ]آگ سے دور کرنے والا عمل بتلائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بے شک تم نے عظیم [چیز]کے بارے میں استفسار کیا ہے، اور جس کسی کے لیے اللہ تعالیٰ آسان فرمائے،وہ یقینا سہل ہے:تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز کو قائم کرو، زکاۃ کو ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت [اللہ]کا حج کرو۔‘‘ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کیا میں خیر کے دروازوں کی طرف تمہاری راہنمائی نہ کروں ؟روزہ ڈھال ہے۔ صدقہ گناہ کو اس طرح ختم کر دیتا ہے جیسا کہ پانی آگ کو بجھادیتا ہے۔ اور دورانِ شب بندے کی نماز [بھی]۔‘‘ اس (راوی)نے بیان کیا:’’ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے [یہ دو آیات کریمہ] تلاوت فرمائیں [جن کا ترجمہ]یہ ہے :[ان ]کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ اپنے رب کو خوف اور لالچ سے پکارتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔ پس کوئی شخص نہیں
[1] جامع الترمذي، أبواب الإیمان، باب ما جاء في حرمۃ الصلاۃ، رقم الحدیث ۲۶۱۶، ۷/۳۰۵۔۳۰۶؛ وسنن ابن ماجۃ، أبواب الفتن، باب کف اللسان في الفتنۃ، رقم الحدیث ۴۰۲۱، ۲/۳۷۳۔ الفاظ حدیث جامع الترمذي کے ہیں۔ امام ترمذي نے اس حدیث کو [حسن صحیح]کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:جامع الترمذي۷؍۳۰۶)؛ شیخ البانی نے اس کو [صحیح ]قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذی ۲/۳۲۹؛ و صحیح سنن ابن ماجہ ۲/۳۵۹)۔ علامہ مبارکپوری نے تحریر کیا ہے:’’ اس کو احمد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘(ملاحظہ ہو:تحفۃ الاحوذي ۷/۳۰۶)۔