کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 269
(28) سوال سے زیادہ جواب ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوال کرنے والے کی حاجت اور ضرورت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پوچھی گئی بات سے بسا اوقات زیادہ بھی بتا دیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مبارک طریقہ آپ کے عظیم علم، امت کے لیے کمال خیر خواہی اور تعلیم و تزکیہ کی شدید خواہش پر دلالت کناں ہے۔ اس سلسلے میں ذیل میں توفیق الٰہی سے چار شواہد پیش کیے جا رہے ہیں : ۱۔ سمندری پانی سے وضو کے سائل کو مردار سمندرکا حکم بتانا: حضرات ائمہ احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ رحمہم اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں : ’’ سَأَلَ رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَقَالَ:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! إِنَّا نَرْکَبُ الْبَحْرَ، وَنَحْمِلُ مَعَنَا الْقَلِیْلَ مِنَ الْمَائِ، فَإِنْ تَوَضَّأْنَا بِہٖ عَطِشْنَا، أَفَنَتَوَضَّأُ بِمَائِ الْبَحْرِ؟‘‘۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ھُوَ الطَّھُوْرُ مَاؤُہٗ، وَالْحِلُّ مَیْتَتُہ‘‘۔[1]
[1] المسند ۲/۳۶۱ (ط:المکتب الاسلامي) ؛ وسنن أبی داود، کتاب الطہار، باب الوضوء بماء البحر، رقم الحدیث ۸۳، ۱/۱۰۶ ؛ وجامع الترمذي، أبواب الطہارۃ، باب ما جاء في ماء البحر أنہ طہور، رقم الحدیث ۶۹، ۱/۱۸۷۔۱۸۸؛ وسنن النسائي، کتاب المیاہ،الوضوء بماء البحر، ۱/۱۷۶؛ وسنن ابن ماجۃ، أبواب الطہارۃ، باب الوضوء بماء البحر، رقم الحدیث ۴۰۰، ۱/۷۶۔ الفاظ حدیث سنن أبی داود کے ہیں۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو [حسن صحیح]اور شیخ البانی نے [صحیح]قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو:جامع الترمذي۱/۱۹۲، وصحیح سنن أبی داود ۱/۱۹)۔