کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 258
وَغَیْرِہٗ، وَذکرَ قَبلَہُ مَا ھُوَ الأَوْلیٰ فِي حَقِّہٖ، وَمَا یُسَرُّ بِہٖ۔‘‘[1]
’’اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سائل کے حق میں زیادہ مفید بات کو پہلے ذکر کیا جائے، خواہ اس نے اس کے بارے میں دریافت نہ [بھی] کیاہو۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل اور دوسرے لوگوں سے متعلق عام جواب کو چھوڑا اور اس [بات]کو پہلے ذکر فرمایا،جو ان کے حق میں زیادہ مفید تھی اور جس کے ساتھ وہ خوش ہونے والے تھے۔‘‘
۳۔بدو کے عمدہ سوال کی تعریف:
امام بخاری اور امام بیہقی رحمہما اللہ تعالیٰ نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا:
’’جَائَ أَعْرَابِيٌ إِلَی النَّبِيِّ صَلی اللّٰه علیہ وسلم فَقَالَ::’’ عَلِّمْنِيْ عَمَلًا یُدْخِلْنِي الْجَنَّۃَ‘‘۔
قَالَ:’’ لَئِنْ کُنْتَ أَقْصَرْتَ الْخُطْبَۃَ، لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسأَلَۃَ أَعتِقِ النَّسَمَۃَ وَفْکَّ الرَّقَبَۃَ‘‘۔
قَالَ:’’ أَوَلَیْسَا وَاحِدًا؟‘‘۔
قَالَ:’’ لَا، عِتْقُ النَّسَمَۃِ أَنْ تَفَرَّدَ بِعِتْقِھَا، وَفَکُّ الرَّقَبَۃِ أَنْ تُعِیْنَ فِي ثَمَنِھَا، وَالْمِنْحَۃَ الْوَکُوْفَ وَالْفَيْئَ عَلَی ذِي الرَّحِمِ الظَّالِمِ فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِکَ فَأَطعِمِ الْجَائِعَ، وَاسْقِ الظَّمْآنَ، وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ، وَاَنْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِکَ فَکُفَّ لِسَانَکَ إِلاَّ مِنْ خَیْرٍ۔‘‘[2]
[1] بھجۃ النفوس۱/۱۳۴۔
[2] مشکاۃ المصابیح، کتاب العتق، الفصل الثاني، رقم الحدیث ۳۳۸۴(۳)، ۲/۲۰، ۱۔۱۰۱۱؛ نیز ملاحظہ ہو:الأدب المفرد، باب فضل من یصل ذا الرحم الظالم، رقم الحدیث ۶۹، ص۴۰؛ والسنن الکبری،کتاب العتق، باب فضل إعتاق النسمۃ وفک الرقبۃ، رقم الحدیث۲۱۳۱۳، ۱۰/۴۶۱؛ البتہ الأدب المفرد میں یہ الفاظ نہیں کہ:’’ فإن لم تُطِق ذلک فأطعم الجائع واسق الظمآن‘‘۔ شیخ البانی نے اس حدیث کی[اسنادکو صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:ھامش مشکاۃ المصابیح۲/۱۰۱۱؛ وصحیح الأدب المفرد۴۲۔۴۳)۔