کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 246
کام نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے: ’’فِیْہِ مُرَاجعۃُ الْعَالِمِ فِيْ تَفْسِیْرِ الْمُجْمَلِ وَتَخْصِیْصِ الْعَام۔‘‘[1] ’’اس [حدیث]سے مجمل کی تفسیر اور عام کی تخصیص کی خاطر عالم کی طرف رجوع کرنا[ثابت ہوتا] ہے۔‘‘ ٭ تعلیم وتربیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آسانی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیکی کی متعدد راہوں کی طرف راہ نمائی فرمائی اور یہ بھی واضح فرما دیا کہ اگر ان میں سے ایک یا نیکی کے کچھ کام کسی کے دائرہ استطاعت میں نہ ہوں، تو وہ نیکی کا کوئی ایسا کام کرے، جو اس کے بس میں ہو۔علامہ ابن ابی جمرہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے: ’’ فِيْ ھٰذَا الْکَلَامِ إِشَارَۃٌ إِلَی أَنَّ الصَّدَقَۃَ لَا تَنْحَصِرُ فِي الْأَمْرِ الْمَحْسُوْسِ مِنْہُ، فَلَا یَخْتَصُّ بِأَھْلِ الْیَسَارِ مَثَلًا، بَلْ کُلُّ وَاحِدٍ قَادِرٌ عَلَی أَنْ یَفْعَلَھَا فِيْ أَکْثَرِ الْأَحْوَالِ بِغَیْرِ مُشَقَّۃٍ ‘‘۔[2] ’’اس کلام میں یہ اشارہ ہے کہ بلاشبہ صدقہ کسی ایک محسوس کام میں منحصر نہیں۔ مثال کے طور پر[استطاعت] صدقہ صرف مال و دولت والوں ہی کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ ہر شخص عام حالات میں بلا مشقت صدقہ کر سکتا ہے۔‘‘ اور اس میں چنداں تعجب نہیں، کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے آسانی کرنے والے معلّم بنا کر مبعوث کیے گئے تھے۔[3] ۳۔ایک ہی نشست میں ضمام رضی اللہ عنہ کے متعدد سوالات: امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں :
[1] فتح الباري ۳/۳۰۹؛ نیز ملاحظہ ہو:بھجۃ النفوس۲/۱۴۶؛اور کتاب ھذا کے صفحات۲۹۹۔۳۰۹۔ [2] منقول از فتح الباري۱۰؍۴۴۸، نیز ملاحظہ ہو:عمدۃ القاري۲۲؍۱۱۲۔ [3] اس حدیث کی تخریج اور اس کے بارے میں تفصیل کتاب ھذا کے ص ۴۲۶ پر ملاحظہ فرمائیے۔