کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 152
بَلْ یَلْبَثُ فِیْھَا، وَیُبَیِّنُھَا تَبْیینًا لِذَاتِھَا مِنْ مَخَارِجِھَا وَصِفَاتِھَا، وَتَمِیْزاً لِحَرَکَاتِھَاوَسَکَنَاتِھَا۔ وَخَلَاصَۃُ الکَلامِ نَفيُ الْعَجَلَۃِ وَإِثباتُ التَّؤُدَۃِ۔‘‘[1] ’’ بے شک اس سے مراد یہ ہے کہ آپ حروف کو بولتے وقت جلدی نہ کرتے، بلکہ ان کے دوران توقف فرماتے اور عمدگی سے بیان فرماتے کہ ان کے مخارج اور صفات نکھر کر سامنے آتے اور ان کی حرکات و سکنات واضح ہو جاتیں، [جابر رضی اللہ عنہ کے ] بیان کا مقصد [ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو میں ] جلد بازی کی نفی اور ٹھہراؤ کو ثابت کرنا ہے۔‘‘ ۲۔حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا : امام ابوداود رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ’’ کَانَ کَلَامُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَلَامًا فَصْلًا یَفْھَمُہٗ کُلُّ مَنْ سَمِعَہٗ۔‘‘[2] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتار جدا جدا ہوتی تھی، ہر سننے والا ا س کو سمجھتا تھا۔‘‘ ۳۔عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک اور حدیث: امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے کہ : ’’ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ یُحَدِّثُ لَوْعَدَّہُ الْعَادُّ لَأَحْصَاہُ۔‘‘[3]
[1] مرقاۃ المفاتیح ۱۰/۸۷۔ [2] سنن أبی داود، کتاب الأدب، باب الھدي في الکلام، رقم الحدیث۴۸۳۹،۱۳/۱۲۶۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو [حسن]کہاہے۔ (ملاحظہ ہو:صحیح سنن أبي داود۳/۱۹۸)۔ [3] صحیح البخاري، کتاب المناقب، باب صفۃ النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم، رقم الحدیث۳۵۶۷،۶/۵۶۷۔