کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 141
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو میں نے عرض کیا:’’ آپ مجھے مبعوث [ تو ] فرما رہے اور میں نو عمر ہوں، اور مجھے[لوگوں کے درمیان] فیصلے کرنے میں کچھ تجربہ نہیں۔‘‘ انہوں نے بیان کیا :’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ضرب لگائی، اور فرمایا:’’ جاؤ، اللہ تعالیٰ تمہاری زبان کو ثبات اور تمہارے دل کو ہدایت عطا فرمائے گا۔‘‘ انہوں نے بیان کیا :’’ پس مجھے [ اس کے بعد] دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے نے [ کبھی بھی ] عاجز نہیں کیا۔’’ [ یعنی میں ہر پیش ہونے والے قضیہ میں آسانی سے فیصلہ کر لیتا] ب: امام احمد رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ’’ مَرَّبِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم، وَأَنَا وَجِعٌ، وَأَنَا أَقُولُ :’’ اَللّٰھُمَّ إِنْ کَانَ أَجلِيْ قَدْ حَضَرَ فَأَرِحْنِيْ، وَإِنْ کَانَ آجِلاً فَارْفَعْنِيْ، وَإِنْ کَانَ بَلَائً فَصَبِّرْنِيْ۔‘‘ قَالَ:’’ مَا قُلْتَ؟‘‘ فَأَعَدْتُّ عَلَیْہِ، فَضَرَبَنِيْ بِرِحْلِہٖ، فَقَالَ:’’ مَاقُلْتَ؟‘‘۔ فَأَعَدَتُ عَلَیْہِ، فَقَالَ:’’ اَللّٰھُمَّ عَافِہٖ أَواشْفِہٖ‘‘۔ قَالَ:’’ فَمَا اشْتَکَیْتُ ذَلِکَ الْوَجَعَ بَعْدُ‘‘۔[1] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور میں مبتلائے درد تھا، اورمیں کہہ رہا تھا :’’ اے میرے اللہ! اگر میرا وقت اجل آ چکا ہے،تو مجھے راحت دیجیے، [ یعنی موت دیجیے]، اور اگر ابھی اس میں مہلت ہے،تو مجھے
[1] المسند،رقم الحدیث۶۳۷،۲/۵۴۔ (ط:دار المعارف بمصر)؛ شیخ احمد شاکر نے اس کی اسناد کو [صحیح]قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو:ھامش المسند۲/۵۴)۔