کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 139
(11)
تنبیہ اور اظہارِ تعلق کے لیے ضرب لگانا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم و تربیت کے دوران بسا اوقات اپنے شاگردوں کو ضرب لگاتے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایسا کرنے میں آپ کے پیش نظر انس و مودت کا اظہار اور بتلائی جانے والی بات کی طرف انہیں متوجہ کرنا ہوتاتھا۔ توفیق الٰہی سے اس سلسلے میں چند ایک شواہد پیش کیے جا رہے ہیں :
۱۔ عباس رضی اللہ عنہ کے سینے پر ضرب لگانا:
حضرات ائمہ احمد، ابویعلی اور حاکم رحمہم اللہ تعالیٰ نے حضرت ام الفضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا :
’’ دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَلیٰ عَمِّہٖ وَھُوَ شَاکٍ، یَتَمَنَّی الْمَوْتَ لِلَّذِيْ ھُوَ فِیْہِ مِنْ مَرَضِہٖ، فَضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِیَدِہٖ عَلیٰ صَدْرِ الْعَبَّاسِ رضی اللّٰه عنہ، ثُمَّ قَالَ :’’ لَا تَتَمَنَّ الْمَوْتَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! فَإِنَّکَ إِنْ تَبْقَ تَزْدَدْ خَیْرًا یَکُوْنُ ذٰلِکَ، فَھُوَ خَیْرٌ لَکَ، وَإِنْ تَبْقَ تَسْتَعْتِبْ مِنْ شَيْئٍ، یَکُوْنُ ذٰلِکَ خَیْرًا لَکَ۔‘‘[1]
[1] المسند۶/۳۳ (ط:المکتب الاسلامي) ؛ ومسند أبي یعلیٰ الموصلي،رقم الحدیث۶ (۷۰۷۶)، ۱۲/۵۰۳؛ ؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب الجنائز، ۱/ ۳۳۹۔ الفاظ حدیث مسند أبی یعلیٰ کے ہیں۔امام حاکم نے اس حدیث کو امام بخاری اور مسلم کی شرط پر [صحیح]قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی نے ان کی تایید کی ہے۔(ملاحظہ ہو:المستدرک علی الصحیحین ۱/۳۳۹، والتلخیص ۱/۳۳۹)؛ مسند أبی یعلیٰ کے فاضل محقق نے اس کی [اسناد کو جید]کہا ہے۔ ھامش مسند أبی یعلیٰ ۱۲/۴۰۳)۔