کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 137
اور تفسیرسکھا دیجیے۔‘‘ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ننھے شاگرد کے شانے پر اپنا دستِ مبارک رکھا۔ حدیث شریف میں فائدہ دیگر: حدیث شریف سے یہ بھی واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے شاگرد کے لیے دعا فرمائی۔ تألیف قلب اور شاگرد کی حوصلہ افزائی میں دعا کی اہمیت چنداں محتاج بیان نہیں۔[1] ۶۔ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کے سر کو چھونا: امام ابوداو د رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ’’ قُلْتُ:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! عَلِّمْنِيْ سُنَّۃَ الْأَذَانِ‘‘ قَالَ:’’ فَمَسَحَ مُقَدَّمَ رَأْسِيْ۔ قَالَ:’’ تَقُوْلُ:اَللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُ أَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُ أَکْبَرُ۔‘‘[2] ’’ میں نے عرض کیا:’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے مسنون اذان سکھا دیجیے۔‘‘ انہوں نے بیان کیا :’’ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر کے اگلے حصے کو چھؤا، ( اور ) فرمایا:’’ تم کہو :’’اللّٰه اکبر، اللّٰه اکبر، اللّٰه اکبر اللّٰه اکبر …الحدیث ‘‘ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم اذان کے وقت حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے سر کے اگلے حصے کو مس فرمایا۔
[1] اس سلسلے میں تفصیل کتاب ھذا کے صفحات ۱۴۴۔۱۵۰ پر ملاحظہ فرمائیے۔ [2] سنن أبی داود، کتاب الصلاۃ، باب کیف الأذان، رقم الحدیث۵۰۰، ۲/۱۲۵۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو [صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن أبی داود۱/۱۰۰)۔