کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 136
رہو گویا کہ تم مسافر ہو یا راہ گزار۔‘‘
اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتِ تعلیم ابن عمر رضی اللہ عنہما کے شانے کو تھاما۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ رقم طراز ہیں :
’’ فِي الْحَدِیْثِ مَسُّ الْمُعَلِّمِ أَعْضَائَ الْمُتَعَلِّمِ عِنْدَ التَّعْلِیْمِ، وَالْمَوعُوْظِ عِنْدَ الْمَوْعِظَۃِ، وَذٰلِکَ لِلتَّأنِیْسِ وَالتَّنْبِیْہِ، وَلَا یُفْعَلُ ذَلِکَ غَالِبًا إِلاَّ بِمَنْ یَمِیْلُ إِلَیْہِ۔‘‘[1]
’’ حدیث میں معلم کے متعلم اور واعظ کے اپنے مخاطب کے اعضاء کو چھونا [ثابت ہوتا] ہے اور ایسا اظہار انس اور تنبیہ کے لیے کیا جاتا ہے اور ایسا طرز عمل غالباً اس کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے جس کمے ساتھ دلی لگاؤ ہو۔‘‘
۵۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے کندھے پر ہاتھ رکھنا:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ :
’’ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَضَعَ یَدَہُ عَلیٰ کَتِفِيْ، أَوْ عَلیٰ مَنْکِبِيْ شَکّ سَعِیْدٌ۔ ثُمَّ قَالَ:’’اَللّٰھُمَّ فَقِّھْہُ فِي الدِّیْنِ وَعَلِّمْہُ التَّاْوِیْلَ۔‘‘[2]
’’ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے یا میرے مونڈھے پر ہاتھ رکھا سعید نے شک کیا [3]پھر کہا:’’اے میرے اللہ! اس کو دین میں سمجھ عطا فرما
[1] فتح الباري۱۱/۲۳۵۔
[2] المسند، رقم الحدیث۲۳۹۷، ۳/۱۲۷۔ اس حدیث کے بارے میں حافظ ہیثمی نے تحریر کیا ہے:’’ احمد اور الطبرانی نے اس کو کئی اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ‘‘ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے:’’ احمد کی روایت کی دو سندیں ہیں اور ان کے روایت کرنے والے صحیح کے راوی ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد۹/۲۷۶) ؛شیخ احمد شاکر نے اس کی [اسناد کو صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:ھامش المسند۳/۱۲۷۔)
[3] سعید نے شک کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے [علیٰ کَتِفِیْ]کے الفاظ استعمال کیے یا [عَلیٰ مُنْکِبِیْ] کے …الخ۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں عبارتوں میں کوئی فرق نہیں، لیکن انہوں نے ادائے امانت ہی کے پیش نظر روایت میں پیدا ہونے والے شک کا اظہار کر دیا۔رحمہ اللّٰه رحمۃ واسعہ۔