کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 122
قَالَ:فَقَالَ:’’ یَا عَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ! سَلِ اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فِي الدُّنْیَاوَالْآخِرَۃِ ‘‘۔[1] ’ ’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا :’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی چیز بتلائیے کہ میں اس کے ساتھ دعا کروں ( یعنی اللہ تعالیٰ سے طلب کروں )‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ سے معافی اور عافیت کا سوال کرو۔‘‘ ’’ انہوں نے بیان کیا :’’ پھر میں نے دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا :’’ مجھے کوئی چیز بتلائیے کہ اس کے ساتھ دعا کروں۔‘‘ انہوں نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عباس! اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ! اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا سوال کرو۔‘‘ اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محترم چچا کو دوران تعلیم دو دفعہ ندا دی۔ ایک دفعہ :’’یا عباس ‘‘ اور دوسری دفعہ :’’ یا عم رسول صلی اللہ علیہ وسلم !‘‘ کے الفاظ مبارکہ سے۔ ۲۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کوندا: امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا : ’’ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ یَا أَبَا الْمُنْذِرِ! أَتَدْرِيْ أَيُّ آیَۃٍ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ مَعَکَ أَعْظَمُ؟ ‘‘۔ قَالَ:قلْتُ:’’ اَللّٰہُ وَرَسُولُہٗ أَعْلَمُ ‘‘۔ قَالَ:’’ یَا أَبَا الْمُنْذِرِ! أَتَدْرِيْ أَيُّ آیَۃٍ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ مَعَکَ
[1] المسند، رقم الحدیث ۱۷۸۳،۳؍۲۱۴۔ شیخ احمد شاکر نے اس کی [اسناد کو صحیح]قرار دیا۔(ملاحظہ ہو:ہامش المسند ۳/۲۱۴) ؛ شیخ البانی نے بھی اس حدیث کو[صحیح]کہا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح الجامع الصغیر وزیادتہ، رقم الحدیث ۷۹۳۸ ــ ۳۰۳۲، ۲/۱۳۱۴)۔