کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم - صفحہ 109
مَوْعِظَتِہٖ، وَمُوَافَقَتِہٖ فِیْمَا شُرِعَ لَہُ الْقِیَامُ لِأَجْلِہٖ۔‘‘[1]
’’ ان کے امام کی طرف رخ کرنے میں حکمت یہ ہے کہ اس میں اس کی گفتگو سننے کے لیے تیار ہونا ہے اور توجہ کے ساتھ اس کی بات سننے کے آداب کی پاسداری ہے، جب وہ [سامع] اس کی طرف اپنا منہ کرے اور جسم، دل اور دماغ کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو،تو اس کے لیے نصیحت کے سمجھنے کے دواعی زیادہ ہوں گے اور مقصودِ خطبہ کی تکمیل کے امکانات زیادہ روشن ہوں گے۔‘‘
علامہ عینی رحمہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں رقم طراز ہیں :
’’ اَلْحِکْمَۃُ فِيْ اِسْتِقْبَالِھِمْ لِلْخَطِیْبِ أَنْ یَّتَفَرَّغُوا لِسَمَاعِ مَوْعِظَتِہٖ، وَتَدَبُّرِ کَلاَمِہٖ، وَلاَ یَشْتَغِلُوا بِغَیْرِہٖ۔‘‘ [2]
’’ خطیب کی طرف رخ کرنے میں حکمت یہ ہے کہ وہ دل جمعی سے اس کے وعظ کو سنیں، اس کی بات پرغوروفکر کریں اور کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہوں۔‘‘
۲:حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ :
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
’’ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذَا اسْتَوٰی عَلَی الْمِنْبَرِ، اِسْتَقْبَلْنَاہُ بِوُجُوھِنَا۔‘‘ [3]
’’ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبرپر تشریف فرما ہوتے تو ہم اپنے چہروں کے
[1] فتح الباري۲/۴۰۲۔
[2] عمدۃ القاري۶/۲۲۰۔
[3] صحیح سنن الترمذی، أبواب الجمعۃ، باب في استقبال الإمام إذا خطب، رقم الحدیث ۴۲۰ ــ ۵۱۳،۱/۱۵۷۔ امام ترمذی نے لکھا ہے کہ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کا عمل ہے کہ وہ دورانِ خطبہ امام کی طرف رُخَ کو مستحب قرار دیتے ہیں اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق کا قول ہے۔(ملاحظہ ہو:المرجع السابق۱/۱۵۷)۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو[صحیح]قرار دیا ہے۔(ملاحظہ ہو:صحیح سنن الترمذي۱/۱۵۷؛ وسلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ ۵/۱۱۰ ـ ۱۱۷)۔