کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 97
فَأَیْقَظَنَا لِلصَّلَاۃِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی بَیْتِہِ فَصَلّٰی ھُوِیًّا مِنَ اللَّیْلِ، فَلَمْ یَسْمَعْ لَنَا حِسًّا، فَرَجَعَ إِلَیْنَا، فَأَیْقَظَنَا، فَقَالَ:
’’قُوْمَا فَصَلِّیَا۔‘‘([1])
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات کو تشریف لائے اور ہمیں نماز کے لیے اٹھایا۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے اور رات کا کافی وقت نماز پڑھتے رہے۔ اس دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کوئی حس و حرکت محسوس نہ فرمائی، تو دوبارہ ہماری طرف تشریف لائے اور ہمیں بیدار کرنے کی خاطر فرمایا: ’’اٹھو اور دونوں نماز (تہجد) پڑھو۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی صاحب زادی اور داماد رضی اللہ عنہما کو نمازِ تہجد کی ترغیب دینے کا اہتمام کس قدر تھا! اور کتنے دکھ کی بات ہے، کہ ہم میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلّق کا دعویٰ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اپنے گھر کی چار دیواری میں موجود بیٹوں اور بیٹیوں کو نمازِ تہجد کے لیے نہیں، بلکہ نمازِ فجر کے لیے بھی جگانے کا اہتمام نہیں کرتے۔ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَوَفِّقْنَا للِتَّأَسِّي بَحَبِیْبِکَ وَخَلِیْلِکَ مُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔ آمِیْن یَا ذَالْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔ ([2])
حدیث شریف میں دیگر تین فوائد:
۱: دعوتِ دین کے لیے وقت اور جگہ کی کوئی قید نہیں۔ ہر موزوں وقت اور مناسب جگہ میں دعوتِ دین دی جائے گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کی تاریکی میں دو
[1] سنن النسائی، کتاب قیام اللیل وتطوّع النہار، ۳/۲۰۶ باختصار۔ شیخ البانی نے اس کو [صحیح] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن النسائي ۱/۳۵۵)۔
[2] اے اللہ! ہمیں ایسے لوگوں سے نہ کیجیے اور ہمیں اپنے حبیب و خلیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمایئے۔ آمین یَاذَالْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ۔