کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 95
استقبال سے روک کر خود ہی ان کے لحاف میں اپنے قدم مبارک داخل کرکے اس طرح تشریف فرما ہوئے، کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کرتے رہے۔([1])
۶: اولاد کی تعلیم و تربیت کا انہیں سازوسامان دینے سے بہتر ہونا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا وِرد سکھلانے سے پہلے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے اعلیٰ بات کی خبر نہ دوں؟‘‘
۷: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دورانِ تعلیم اسلوبِ استفہام استعمال فرمانا۔([2])
۸: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلوبہ چیز سے بہتر بات کی طرف راہ نمائی فرمانا۔
۹: اپنی اولاد کو دنیاوی آسائشوں کی بجائے زہد و ایثار کی راہ پر چلانا۔
(۱۰)
بیٹی اور داماد کو نمازِ تہجد کی ترغیب دینا
سیرتِ طیبہ میں بحیثیتِ باپ ایک بات یہ بھی ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی اور داماد رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کو نماز تہجد کی ترغیب دینے کی خاطر تشریف لائے۔ امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے:
’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم طَرَقَہُ وَفَاطِمَۃَ رضی اللّٰه عنہما قَالَ:
’’أَ لَا تُصَلِّیَانِ؟‘‘([3])
[1] ملاحظہ ہو: فتح الباري ۱۱/۱۲۴۔
[2] ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۶/۲۱۶، و ۱۱/۱۲۴۔
[3] متفق علیہ: صحیح البخاري، کتاب التفسیر، باب (وکان الإنسان أکثر شيء جدلا)، رقم الحدیث ۴۷۲۴، ۸/۴۰۷۔ ۴۰۸؛ وصحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب ما روي فی من نَامَ اللیل أجمع حتّٰی أصبح، رقم الحدیث ۲۰۶۔ (۷۷۵)، ۱/۵۳۷۔۵۳۸۔ الفاظِ حدیث صحیح البخاری کے ہیں۔