کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 87
حسن، حسین اور محسِّن رضی اللہ عنہم رکھے۔ اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے نواسوں کے معاملات سے شدید دلچسپی واضح ہے۔ ج: بیٹی کو نواسے کا سر مونڈھنے اور صدقہ کرنے کا حکم: امام احمد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ: ’’بے شک جب حسن بن علی رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے، تو ان کی والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ان کی طرف سے دو مینڈھوں کے ساتھ ان کا عقیقہ کرنے کا قصد کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَا تَعُقِّي عَنْہُ، وَلٰکِنْ احْلِقِيْ شَعْرَ رَأسِہِ، ثُمَّ تَصَدَّقِيْ بِوَزْنِہِ مِنَ الْوَرَقِ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔‘‘ [’’تم اس کا عقیقہ [تو] نہ کرو، ([1]) البتہ اس کے سر کے بال مونڈھ کر ان کے وزن کے برابر چاندی اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ کردو۔‘‘ پھر اس کے بعد حسین رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، تو انہوں [یعنی فاطمہ رضی اللہ عنہا ] نے (پھر) ویسے ہی کیا۔‘‘]([2]) د: نواسوں کے رونے پر بے قرار ہونا اور ان کی پیاس بجھانے کی کوشش: امام طبرانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے کہا:
[1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عقیقہ خود کیا۔ (ملاحظہ ہو: اس کتاب کا ص ۸۴)۔ [2] المسند، رقم الحدیث ۲۷۱۹۶، ۴۵/۱۷۳۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے اس کی [سند کو ضعیف] کہا ہے۔ لیکن شیخ البانی نے متابعات کی وجہ سے اس کو [حسن] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: إرواء الغلیل، رقم الحدیث ۱۱۷۵، ۴/۴۰۲۔۴۰۳۔ نیز ملاحظہ ہو : صحیح سنن الترمذي ۲/۹۳؛ والإحسان في ترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الأطعمۃ، باب العقیقۃ، ذکر الیوم الذي یُعَقُّ فیہ عن الصبِّي، رقم الحدیث ۵۳۱۱، ۱۲/۱۲۷۔