کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 67
’’فَکُلُّ ذٰلِکَ لَمْ یَکُنْ، وَلٰکِنْ ابْنِيْ ارْتَحَلَنِيْ، فَکَرِھْتُ أَنْ أُعْجِلَہُ، حَتَّی یَقْضِيَ حَاجَتَہُ۔‘‘‘([1]) [’’ایسی تو کوئی بات (بھی) نہ تھی، لیکن میرے بیٹے نے مجھے سواری بنا رکھا تھا، اور میں نے اس بات کو ناپسند کیا، کہ اسے اپنی خواہش پورا کرنے سے پہلے ہی جلدی میں ڈال دوں (اور وہ میری پشت سے بادلِ نخواستہ نیچے اتر جائے)‘‘۔] اللہ اکبر! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نواسے سے کس قدر محبت تھی، کہ انہیں اٹھائے ہوئے نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں تشریف لاتے ہیں اور پھر انہیں خوش کرنے کا کس قدر اہتمام، کہ اپنی پشت مبارک پر ان کے سوار ہونے کی وجہ سے سجدہ اس قدر طویل کیا، کہ حضراتِ صحابہ کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فکر لاحق ہوگیا۔ فَصَلوَاتُ رَبِّيْ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ۔ (۷) بیٹیوں کی عائلی زندگی سے تعلّق سیرتِ طیبہ کے حوالے سے ایک نمایاں بات یہ ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مشغول ترین زندگی کے باوجود اپنی صاحبزادیوں کی عائلی زندگی کی طرف خوب توجہ دیتے۔ اس بارے میں ذیل میں چھ شواہد ملاحظہ فرمائیے:
[1] المسند، ۱۶۰۳۳، ۲۵/۴۱۹۔ ۴۲۰؛ والسنن الکبریٰ، کتاب الصلاۃ، ھل یجوز أن تکون سجدۃٌ أطول من سجدۃ؟، رقم الحدیث ۷۳، ۱/۳۶۶؛ والمستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۳/۱۶۶۔ ۱۶۷۔ الفاظِ حدیث المسند کے ہیں۔ امام حاکم نے اسے [بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح] کہا ہے اور حافظ ذہبی نے ان سے موافقت کی ہے۔ شیخ ارناؤوط اور ان کے رفقاء نے المسند کی [سند کو صحیح اور اس کے راویوں کو ثقہ] قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک ۳/۱۶۷؛ والتلخیص ۳/۱۶۷؛ و ھامش المسند ۲۵/۴۲۰)۔