کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 59
’’حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے ہیں اور میں اس سے ہوں، حسین سے محبت کرنے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کریں۔ حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔]([1])
اللہ اکبر! نواسہ کو بہلانے اور ہنسانے کا کس قدر اہتمام ہے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے آگے بڑھتے ہیں، حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر سب لوگوں کے رُوبرو اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر ان کے پیچھے پیچھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ انہیں پکڑلیتے ہیں۔
پھر کس قدر پیار و شفقت ہے! ایک مبارک ہاتھ ان کی گدی پر، دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور پھر اپنے دہن مبارک کو ان کے منہ پر رکھ کر بوسے دینے شروع کردیتے ہیں اور ساتھ ہی اعلان فرماتے ہیں: ’’حسین رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں اس سے۔‘‘
نواسے سے صرف خود ہی محبت نہیں کرتے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرکے [حسین سے محبت کرنے والے سے اللہ تعالیٰ محبت کریں] پوری امت کو ان سے محبت کی ترغیب دے رہے ہیں۔
پھر اپنے لاڈ پیار اور محبت کا سبب بیان فرما رہے ہیں، کہ حسین رضی اللہ عنہ نواسوں سے ایک نواسہ ہے۔ فَصَلَوَاتُ رَبِّيْ وَسَلَامُہُ عَلَیْہِ، وَرَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ،
[1] المسند، رقم الحدیث ۱۷۵۶۱، ۲۹/۱۰۲۔۱۰۳؛ والأدب المفرد، باب معانقۃ الصبي، رقم الحدیث ۳۶۶، ص ۱۳۳۔ ۱۳۴؛ وسنن ابن ماجہ، المقدّمۃ، فضائل الحسن والحسین رضی اللّٰه عنہما ، رقم الحدیث ۱۳۱، /۲۸؛ والإحسان في تقریب صحیح ابن حبان، کتاب إخبارہ صلی اللّٰه علیہ وسلم عن مناقب الصحابۃ رجالہم ونسائہم، ذکر إثبات محبۃ اللّٰه عزوجل لمجي الحسین بن علي رضی اللّٰه عنہما ، رقم الحدیث ۶۹۷۱، ۱۵/۲۴۷۔ ۲۴۸؛ والمستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ، ۳/۱۷۷۔ الفاظِ حدیث المستدرک کے ہیں۔ امام حاکم نے اسے [صحیح الإسناد] اور حافظ ذہبی نے [صحیح] کہا ہے۔ حافظ بوصیری نے سنن ابن ماجہ کی [سند کو حسن] اور [راویان کو ثقہ] قرار دیا ہے، اور شیخ البانی نے اس کو [حسن] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: المستدرک ۳/ ۱۷۷، والتلخیص ۳/۱۷۷؛ و مصباح الزجاجۃ ۱/۶۳؛ وصحیح سنن ابن ماجہ ۱/۳۰)۔