کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 53
نے مذکورہ بالا دعا سکھلانے سے پیشتر واضح طور پر بیان فرمایا، کہ اس کا سیکھنا خادم کے ملنے سے بہتر ہے۔ افسوس کہ ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں، کہ بیٹی سے ان کے تعلّق کا معیار اسے سازوسامان مہیا کرنا ہے۔ ان کی نظر میں تعلیم و تربیت کی کوئی خاص اہمیت و وقعت نہیں۔ ۲: بیٹی کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ اس کی شادی سے منقطع نہیں ہوتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ دعا ان کی شادی کے بعد سکھلائی۔ ۳: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تعلیم کی غرض سے ان کے ہاں تشریف لے جانا۔([1]) ۴: دورانِ تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلوب استفہام استعمال فرمانا، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں وہ چیز زیادہ پسند ہے، جو تم نے طلب کی ہے، یا اس سے بہتر چیز؟‘‘([2]) ۵: مطلوبہ چیز نہ دینے کی صورت میں اس کا نعم البدل دینا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خادم کی بجائے اس سے بہتر چیز یعنی مذکورہ بالا دعا سکھلائی۔ تعلیم و تربیت میں اس کی اہمیت اہلِ فکر و نظر سے مخفی نہیں۔ ج: نواسے رضی اللہ عنہ کو دعائے قنوت سکھانا: حضراتِ ائمہ احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور ابن حبّان نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان کیا:
[1] اس بارے میں مزید تفصیل کے لیے راقم السطور کی کتاب:’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم‘‘ صفحات ۶۰۔۷۰ ملاحظہ فرمائیے۔ [2] اس بارے میں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: المرجع السابق صفحات ۳۲۵ ۔ ۳۳۳۔