کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 40
فِيْ حُجْرِہٖ۔‘‘ ([1]) ’’پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (وہاں سے) نکلے اور ( اپنے گھر کی طرف) روانہ ہو گئے۔ ( راستے میں ) ان دونوں کے لیے دُعا کرتے رہے ، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ میں داخل ہو گئے۔‘‘ دونوں حدیثوں سے معلوم ہونے والی چھ باتیں: ا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹی کی عائلی زندگی سے گہرا تعلّق اور دلی لگاؤ ، کہ باوجود بے پناہ مصروفیات کے ان کی نئی زندگی کا آغاز کروانے کے لیے خود ان کے ہاں تشریف لائے۔ ۲:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹی اور ان کے شوہر کے درمیان، ان دونوں پر، ان کے بچوں، ان کی نسل اور معاملات پر اللہ تعالیٰ کی برکتوں کے نزول کے لیے عظیم الشان دُعائیں کرنا۔ ۳: داماد کی تکریم، کہ [میرے بھائی] کے عظیم لقب کو ان کے لیے استعمال فرمانا۔ اور یہ لقب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مؤاخات کے موقع پر عطا فرمایا تھا۔ اللہ کریم نے سچ فرمایا ہے: {وَإِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍ} ([2]) ۴:صاحب زادی کے رُوبرو ان کے رشتہ کے لیے حسن انتخاب کی خاطر مخلصانہ کوشش کا وضاحت اور اختصار سے تذکرہ فرمانا۔ ۵:صاحب زادی کی خدمت اور دیکھ بھال کی خاطر آنے والی خوش نصیب خاتون کے لیے عظیم الشان دُعائیں دینا۔
[1] مجمع الزوائد ، کتاب المناقب ، باب منہ في فضلھا و تزویجھا بعلي رضی اللّٰه عنہما ، ۹؍۲۰۹۔ ۲۱۰۔ حافظ ہیثمی لکھتے ہیں، کہ اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے روایت کرنے والے صحیح کے راویان ہیں۔ (ملاحظہ ہو: المرجع السابق ۹؍۲۱۰)۔ نیز ملاحظہ ہو: الطبقات الکبریٰ ۸؍۲۳۔۲۳۔ [2] سورۃ القلم؍ الآیۃ۴ ۔ [اور بلاشبہ آپ تو ایک بہت بڑے خلق پر ہیں۔]