کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 38
اُم ایمن رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ، اور وہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کی والدہ ایک نیک حبشی خاتون تھیں:
’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ھٰذَا أَخُوْکَ ، وَزَوَّجْتَہُ ابْنَتَکَ؟‘‘
[’’ اے اللہ تعالیٰ کے رسول۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یہ آپ کے بھائی ہیں اور آپ نے ان سے اپنی بیٹی کی شادی کی ہے؟ ‘‘]
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب) اپنے صحابہ کے درمیان مواخات کی تھی ([1])، تو علی رضی اللہ عنہ کو اپنا بھائی بنایا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ ذٰلِکَ یَکُوْنُ یَا أَمَّ أَیْمَنَ؟‘‘
[’’اے اُم ایمن! ایسے ہوتا ہے۔‘‘]
انہوں[حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ] نے بیان کیا:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا ، جس میں پانی تھا۔ پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا ، پڑھا ، پھر علی۔ رضی اللہ عنہ ۔ کے سینے اور چہرے پر مسح کیا ([2])، پھر فاطمہ۔ رضی اللہ عنہا ۔ کو بلایا ، وہ حیا کی وجہ سے لڑکھڑاتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھڑی ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اس (پانی) سے چھڑکاؤ فرمایا۔ پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا ،ان کے لیے کہا (یعنی دعائیں کیں۔)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
’’أَمَا إِنِّيْ لَمْ آلُکِ أَنْ أَنْکَحْتُکِ أَحَبَّ أَھْلِيْ إِلَيَّ۔‘‘
[1] مدینہ طیبہ ہجرت کر کے تشریف لانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مہاجر مسلمان کو ایک ایک انصاری مسلمان کا بھائی بنا دیا تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا بھائی بنانے کے اعزاز سے نوازا۔
[2] یعنی پانی کے برتن میں اپنا دستِ مبارک ترکر کے ان کے سینے اور چہرے پر پھیرا۔