کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 31
نماز پر کھڑے ہوئے اور ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے۔ (اس دوران) وہ (بچی) اپنی جگہ پر ہی ٹکی رہی۔‘‘ انہوں نے بیان کیا: ’’فَکَبَّرَ وَکَبَّرْنَا۔‘‘ [’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا اور ہم نے (بھی) اللہ اکبر کہا۔‘‘] انہوں نے (مزید) بیان کیا: ’’حَتّٰی إِذَا أَرَادَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَنْ یَرْکَعَ أَخَذَھَا، فَوَضَعَھَا، ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ، حَتّٰی إِذَا فَرَغَ مِنْ سُجُوْدِہِ، ثُمَّ قَامَ أَخَذَھَا فَرَدَّھَا فِيْ مَکَانَہَا۔فَمَا زَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَصْنَعُ بِہَا ذٰلِکَ فِيْ کُلِّ رَکْعَۃٍ حَتَّی فَرَغَ مِنْ صَلَاتِہِ۔‘‘([1]) [’’یہاں تک کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کرنے کا ارادہ کیا، تو اسے پکڑ کر (زمین پر) رکھ دیا، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع اور سجدہ کیا، یہاں تک کہ جب آپ سجدہ سے فارغ ہوکر کھڑے ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑ کر اس کی جگہ (یعنی اپنے شانۂ مبارک )پر لوٹا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں اس کے ساتھ ایسے ہی کرتے رہے، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوگئے۔‘‘] اللہ اکبر! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نواسی سے کس قدر پیار تھا ! انہیں شانہ مبارک پر اٹھائے ہوئے نماز کے لیے تشریف لاتے ہیں، انہیں اٹھاتے ہوئے ہی نماز
[1] سنن أبي داود، کتاب الصلاۃ باب العمل في الصلاۃ، رقم الحدیث ۹۱۶، /۳/ ۱۳۲۔ ۱۳۳۔ شیخ البانی نے اسے [صحیح] کہا ہے۔ (ملاحظہ ہو: صحیح سنن أبي داود ۱/۱۷۳)۔