کتاب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد - صفحہ 28
[’’اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لاتے، تو وہ اپنی جگہ سے اٹھتیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ میں بٹھاتیں۔‘‘]
مذکورہ بالا روایات سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی صاحبزادی کے استقبال کے حوالے سے درجِ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱: سید الأولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم اپنی صاحبزادی کا استقبال اٹھ کر آگے بڑھ کر کیا کرتے تھے۔
۲: بیٹی کو خوش آمدید [مَرْحَبًا بِابْنَتِي] کے الفاظِ مبارکہ سے کہتے تھے۔
۳: بیٹی کو آمد پر بوسہ دیتے تھے۔
۴: بیٹی کے ہاتھ کو تھام لیتے تھے۔
۵: اپنی مجلس میں دائیں یا بائیں جانب بیٹی کو بٹھا لیتے تھے۔
۶: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح استقبال کرنا وقتی یا حادثاتی بات نہ تھی، بلکہ آپ کا یہ عام معمول تھا، جیسا کہ حدیث شریف کے الفاظ [وَکَانَتْ إِذَا دَخَلَتْ عَلَیْہِ قَامَ إِلَیْھَا……]
[اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آتیں، تو آپ ان کے [استقبال کے] لیے اٹھ کر آگے بڑھتے…]سے معلوم ہوتا ہے۔
حدیث شریف میں دیگر فوائد:
۱:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاحبزادی کی شادی کے بعد ان کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔
۲:صاحب زادی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے والد محترم جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی طرح استقبال کرتی تھیں، جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کا کیا کرتے تھے۔
۳:بیٹی کی شادی کا معنیٰ باپ بیٹی کے رشتہ اور پیار و محبت کا انقطاع نہیں۔